تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب انسانوں کو بچانے کیلئے ایٹم بم یا میزائیل نہیں بلکہ آکسیجن کی ضرورت تھی۔
تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اس دنیا میں اس وقت جو چیز نایاب ہوتی جارہی ہے وہ انسانیت ہے۔جوکہ بہت ہی خاص یا انتہائی مشکل حالات میں کہیں کہیں نمودار ہوجاتی ہے ،حالات کچھ درست ہوتے ہی مفادات اور طاقت کی جنگ جیسے ہی سر اٹھاتی ہے، انسانیت رخصت ہوجاتی ہے۔اس کو سمجھنے کیلئے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے تاکہ اچانک سے کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر کے حالات دوبارہ خراب ہونے کی وجوہات سے پردہ اٹھایا جاسکے۔
کورونا وائرس نے 2019 میں جب چینی شہر ووہان میں سر اٹھایا تو دنیا بھر میں طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔عالمی طاقتوں نے اس وبا کو لے کر بھی خوب سیاست کی ۔امریکہ نے کبھی اس وبا کو چین کی سازش اور بائیو حملہ قرار دیا تو کبھی اسکا الزام روس پر دھر دیا۔ یہ سلسلہ یہاں نہیں تھما بلکہ کچھ حلقوں کی جانب سے اسے نظام دنیا کو مفلوج کرکے دجال کی آمد کیلئے راہ ہموار کرنے کی سازش بھی قرار دیا گیا ۔ غرض یہ کہ جب یہ وبا سر اٹھا رہی تھی اس وقت عالمی ادارے اور دنیا کے دیگر ممالک اس وبا سے نمٹنے کے بجائے تب تک خوابِ غفلت میں پڑے رہے جب تک اس وبا نےدنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیا۔ چین میں تباہی پھیلانے کے بعد کے بعد یہ وائرس امریکہ، اٹلی اور یورپ سمیت دنیا بھر میں اس قدر تیزی سے پھیلا کہ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں کیسز اور ہزاروں اموات رپورٹ ہونے لگیں۔ دنیا بھر کے ممالک میں جب نظام زندگی بری طرح متاثر ہوچکا تھا، عالمی معیشت کا پہیہ بیٹھ چکا تھا،دنیا بھر میں لاک ڈاؤن لگ چکا تھا اور لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ایسے نازک وقت میں بھی وبا کو سنجیدگی سے لینے اور اس سے نمٹنے کی کوشش کرنے کے بجائے کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کرنے والی کٹ کو متنازعہ بنا دیا گیا جس کے بعد کئی ممالک نے مقامی طور پر کٹس بنانے شروع کردی اور اس طرح کورونا سے نمٹنے کے بجائے ایک اورنیا کاروبار شروع ہوگیا ۔
جب خدا خدا کرکے اس وبا کی شدت میں کچھ کمی آئی اور کئی ممالک کی جانب سے اس وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بھی تیار کرلی گئی تو ایک مرتبہ پھر عالمی سیاست میں بھونچال آیا اور پھر ویکسین کے نام پر گورکھ دھندہ شروع ہوگیا۔کہیں کسی ملک نے اپنی بنائی ہوئی ویکسین کی فروخت بڑھانے کیلئے دوسرے ملک کی بنائی گئی ویکسین پر پابندی عائد کردی ۔تو کہیں کسی ملک نے دوسرے ممالک سے آنے والے افراد کیلئے دوسرے ممالک کی بنائی ہوئی ویکسین کو قبول کرنے سے انکار اور صرف اپنی بنائی ہوئی ویکسین لگوانے کی صورت میں اپنے ملک میں داخلے کی شرط عائد کردی یعنی کہ ویکسی نیشن کے معا ملے پربھی خوب سیاست کی گئی۔جبکہ برطانیہ سمیت ویکسین بنانے والے دیگر کئی ممالک نے ضرورت سے زائد مقدار میں ویکیسن ہونے کے باجو د کورونا وائرس سے متاثرہ غریب ممالک کی انسانی ہمدردی کی بنیادپر مدد کرنے کے بجائے ویکیسن کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی ۔
حالیہ دنوں پڑوسی ملک ہندوستان میں کورونا وائروس کی دوسری لہر بری طرح تباہی پھیلارہی ہے۔گزشتہ دنوں یومیہ تین لاکھ کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اچانک سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اس خطرناک حد تک اضافے کی وجہ ہندوستانی حکومت کی غیرسنجیدگی تھی، وزراء ایک ہفتے پہلے تک یہ بیانات دیتے رہے کہ کورونا پر قابو پایا جاچکا ہے جبکہ مودی حکومت کی ترجیح یہ تھی کہ دنیا بھر کو اپنی بنائی ہوئی ویکسین فروخت کی جائے مگر اب وہاں حالات یہ ہیں کہ ہندوستان میں آکسیجن کی کمی کے باعث مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں مریضوں کو رکھنے کیلئے جگہ ختم ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا دل دہلا دینے والے مناظر سے بھرا پڑا ہے جہاں مریضوں کے عزیز و اقارب منت سماجت اور آہ و بکا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں مگر ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی اور جگہ نہ ہونے کے بجائے مریض سڑکوں پر ہی دم توڑ رہے ہیں۔ایسے میں لاکھ اختلافات اور روایتی حریف ہونے کے باوجود پاکستان کی سماجی تنظیمیں اس مشکل گھڑی میں بھارتی حکومت کی مدد کرنے کیلئے تیار او ران کی اجازت کی منتظرہیں وہیں پاکستانی قوم بھی سوشل میڈیا پر غم کے اظہار کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت سے ہندوستان کی ہر ممکن مدد کرنے کی درخواست کر رہی ہے ۔
پاکستانی حکومت اور عوام کے پاس اب بھی وقت ہے کہ دنیا کے متاثرہ ممالک سے سبق حاصل کیا جائے۔ اس وبا کو سنجیدگی سے لیا جائےاور حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کرنے سے پہلے ہی معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات کو اپنایا جائے۔حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ متاثرہ ممالک سے سبق حاصل کرے اور متوقع لاک ڈاؤن کے نتیجے میں عوام کی صحت کے ساتھ معاشی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھے اور گزشتہ لاک ڈاؤن کے نتائج کا جائزہ لے اور ان کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مؤثر پلاننگ کرےاور غلطیوں سے سیکھتے ہوئے بہتر پالیسی تشکیل دے۔
دنیا بھر میں ایک مرتبہ پھر حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ وائرس اپنی ہیئت بدلتا رہتا ہے اور ہیئت بدلنے ساتھ ساتھ اس کی علامات بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ایسے مشکل وقت میں ماسک ، سینیٹائزر ، آکسیجن ، ویکسین اور دیگر حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ جو چیز سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتی ہے وہ صرف اور صرف انسانیت ہے ، کیونکہ جس طرح یہ وائرس سرحدوں کی قید سے آزاد ہے ، کہیں بھی کسی بھی وقت کسی بھی ملک میں داخل ہوجاتا ہے ، اسی طرح انسانیت کا بھی کوئی بارڈر نہیں ہوتا ۔اس لئے جب تک دنیا کے تمام ممالک اپنے مفادات کو پس پشت رکھ کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد اور تعاون نہیں کریں گے تب تک اس وائرس سے چھٹکارہ شاید ممکن نہیں۔