سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں G20 اجلاس منعقد کرنے کی بھارت کی مودی سرکار کی کوشش بری طرح ناکام ہورہی ہے اور آج بھی مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال ہے جب کہ پوری وادی میں کرفیو کا سماں ہے۔
آج مسلسل دوسرے روز بھی مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی اپیل پر مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے۔ غیور کشمیری عوام نے مودی سرکار کے جی-20 گروپ کے اجلاس کو ناکام بنادیا۔
بھارتی فوج اور کشمیر پولیس نے دکان داروں کو کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کی ہدایت کی اور عمل نہ کرنے پر سخت نتائج کی دھمکیاں بھی دیں، لیکن تاجروں نے ان دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے گروپ 20 اجلاس منعقد کرنے کے خلاف مکمل شٹرڈاؤن کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
بہادر اور حریت پسند کشمیری عوام نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواکر جی-20 ممالک اور عالمی سطح پر بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا، جس نے مظلوم عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔
ادھر بوکھلاہٹ اور خوف کے شکار مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں قدم قدم پر بھارتی فوجیوں، پیرا ملٹری فورسز، ایلیٹ نیشنل گارڈز اور میری کمانڈوز کی بھاری نفری تعینات کردی۔
دوسری جانب پاکستان نے کشمیریوں کی آواز بنتے ہوئے عالمی سطح پر تسلیم شدہ مقبوضہ علاقے کو غیر متنازع علاقہ ثابت کرنے کی بھارتی سازش کو ناکام بنادیا۔ چین سمیت 3 رکن ممالک نے شرکت نہیں کی جب کہ کئی مغربی ریاستوں نے سربراہان یا وزرائے خارجہ کے بجائے بھارت میں ہی مقیم اپنے سفارت کاروں کو شرکت کے لیے بھیجا۔
خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور عالمی قوانین کے تحت یہاں ایسا کوئی ایونٹ نہیں کیا جاسکتا، لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے زعم میں آکر جی-02 اجلاس بلا تو لیا لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں اقلیتی امور سے متعلق خصوصی نمائندے فرنینڈ ڈی ویرنس نے بھی کہا تھا کہ ایک مقبوضہ علاقے میں جی 20 اجلاس بلانے پر مذمت کی جانی چاہیے۔
اسی طرح آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کا انعقاد کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ بھارت دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اس کا غیر متنازعہ حصہ ہے۔ لیکن تاریخ یاد رکھتی ہے کہ یہ بھارت ہی تھا جس نے جموں و کشمیر کے تنازع کو سلامتی کونسل میں ایک تنازع کے طور پر لے گیا جو اب تک حل طلب معاملہ ہے۔