جاوید اختر صاحب نے شکوہ کیا کہ ممبئی حملے کے ماسٹر مائنڈ یہاں پاکستان میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ مزید انہوں نے کہا کہ ہم نے تو بھارت میں مہدی حسن وغیرہ کے بڑے بڑے پروگرام کروائے آپ نے تو لتا جی کے پروگرام نہیں کروائے۔
جاوید اختر صاحب فیض میلے میں آئے تھے۔ انہیں شاعری، ادب، ثقافت پر ہی بات کرنی چاہیے تھی۔ اس طرح کی باتیں کرنے کا ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ بھارت واپس جا کر ذلالت سے بچا جا سکے ورنہ ہندو انتہا پسند انہیں چھوڑتے نہیں۔ سب جانتے ہیں کھیل اور فن کے دروازے بھارت نے ہی بند کیے ہیں۔ اب بھلا دہشت گردی کا کرکٹ سے کیا تعلق؟ کیوں بھارت نے پاکستان کے لیے آئی پی ایل کے دروازے بند رکھے ہیں؟ کیوں ایشیا کپ میں برملا پاکستان نہ آنے کا اعلان کر رہا ہے؟
رہی بات مہدی حسن کے پروگرامز کی تو بھارت میں ان حضرات کی مارکیٹ تھی بلکہ اب بھی موجودہ سنگرز کی ڈیمانڈ ہے۔ وہاں کے لوگ عاطف اور راحت کو سننا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی بھی رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان چھوٹی مارکیٹ ہے۔ ہم اپنی انڈسٹری کو تو اٹھا نہیں پا رہے آپ کے سنگرز کہاں سے بلائیں؟ پاکستانی امریکا یا یورپ میں آئے دن میوزبکل شوز کرتے ہیں جس میں بھارتی سنگرز اور کامیڈین شرکت کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں پروگرام کا بجٹ نکل آتا ہے۔
جاوید اختر صاحب کو یہ بولتے ہوئے خیال کرنا چاہیے تھا کہ وہ ایک بھارتی ہیں۔ انہیں پاکستان میں بلایا بھی گیا، انہیں بڑا پیار بھی دیا گیا اور ان کی بات سنی بھی گئی۔ اسی طرح پاکستان میں بھارتی شعراء، ادیبوں اور اداکاروں کو اکثر مختلف مواقع پر مدعو کیا جاتا ہے۔