سری نگر:مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دو سال بعد گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے اور انہوں نے آج آل پارٹیز کانفرنس بلالی ہے۔
مقبوضہ وادی میں اٹھنے والی مظلوم کی آواز نے مودی سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ نئی دہلی میں بھارتی حکومت نے کشمیر کی کٹھ پتلی قیادت کو کانفرنس میں مدعو کیا ہے۔
حریت کانفرنس سمیت کشمیریوں کی حقیقی قیادت کرنے والی جماعتوں کو کانفرنس میں نہیں بلایا گیا۔ مودی انتظامیہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اڑتالیس گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ سروس معطل کردی ہے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما پی چدم برم نے مطالبہ کیا ہے کہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کا اسٹیٹس بحال کرے۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی اقدام کو ختم نہیں کیا جاسکتا، کشمیر کا اسٹیٹس 5 اگست 2019 سے پہلے کی پوزیشن پر لایا جائے۔
مودی حکومت کی جانب سے آل پارٹیزکانفرنس میں شرکت کیلئے مقبوضہ کشمیر کے صرف کٹھ پتلی رہنماوں کو دعوت دی گئی ہے اور حریت کانفرنس کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
حریت کانفرنس نے ردعمل میں کہا کہ اے پی سی کشمیر کی صورتحال سےتوجہ ہٹانےکی کوشش ہے۔ اے پی سی عالمی برادری کو گمراہ کرنےکی کوشش ہے۔ حقیقی نمائندوں کے بغیرمسئلہ کشمیرپربات چیت بے معنی ہے۔
محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ مودی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ محبوبہ مفتی نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان سے مذاکرات پر زور دیا ہے۔
انہوں نے بھارت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہو کہا کہ بھارتی حکومت دوحہ میں طالبان سے بات چیت کررہی ہے، انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔
فاروق عبداللّٰہ کا کہنا تھا کہ گپکار ڈیکلیریشن کا موقف واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
کشمیری رہنما مظفر شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے پر کسی بھی صورتحال میں سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ کشمیری رہنما یوسف تاری گامی نے کشمیری قیدیوں کی رہائی یا ان کی مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں منتقلی کا مطالبہ کیا