سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی سطح پر ثالث شدہ اور ضمانت یافتہ معاہدہ ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سے روگردانی کے بین الاقوامی مضمرات ہیں۔ کیا کسی اور بھارتی بین الاقوامی ضمانت/ معاہدے کی کوئی قدر و اہمیت ہے؟
ذرائع کا کہنا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت اس یک طرفہ معطلی کے فیصلے کو نافذ کرسکتا ہے؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر متعدد قانونی و دیگر معاملات سے متعلق کیا خیال ہے، جیسے شملہ، کراچی معاہدے، قیدیوں کا تبادلہ، ہتھیاروں کی جانچ……؟
اس گتھی کو کون سُلجھائے گا کہ باقی تمام اقدامات باہمی ہیں اور ان کا خیال رکھا جائے گا۔
دوسری جانب بھارت کی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازش کھل کر سامنے آگئی۔
ذرائع کے مطابق پہلگام فالس فلیگ حملے کے پیچھے چھپے بھارتی محرکات کھل کر سامنے آگئے۔ بھارت کی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی۔ بھارت کسی بھی طرح قانونی طور پر اس معاہدے کو یک طرفہ ختم نہیں کرسکتا۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے اپنا غیر ذمے دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھادیا۔ بھارت نے پہلگام فالس فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کردیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے شق نمبر12۔ (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب کہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔
بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian , lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے کی رو سے بھارت یک طرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کرسکتا۔ انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کررہا ہے۔
بھارت اس طرح کے ناقابل عمل اور غیر ذمے دارانہ اقدامات کرکے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔