مہروز احمد
بھارت خطے کے لیے تو خطرہ تھا ہی، اب دُنیا کے دوسرے ممالک کے لیے سنگین خطرے کی علامت بنا ہوا ہے۔ اُس کی جانب سے امریکا اور کینیڈا میں دہشت گردی کے واقعات کرائے گئے اور یہ الزام نہیں حقیقت ہے، جو ثابت شدہ ہے۔ حال ہی میں سڈنی میں ہونے والا دہشت گرد حملہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس سانحے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع نے نہ صرف آسٹریلیا بلکہ پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ تاہم اس حملے کے بعد سامنے آنے والی معلومات، رپورٹس اور سیکیورٹی انکشافات نے ایک بار پھر بھارت کے ریاستی کردار پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں، وہی سوالات جو پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی فورمز پر اٹھاتا آ رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ بھارت صرف خطے تک محدود نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت بیرونِ ملک بھی عدم استحکام پیدا کرنے میں ملوث رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، پاکستان کے اندر دہشت گرد نیٹ ورکس کی سرپرستی اور کینیڈا، امریکا اور یورپ میں ہونے والے مشکوک واقعات، سب اسی سلسلے کی کڑیاں سمجھی جاتی رہی ہیں۔ سڈنی کا واقعہ ان خدشات کو مزید تقویت دیتا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق سڈنی حملے میں ملوث افراد کی سفری تفصیلات، شہریت کے معاملات اور مبینہ عسکری تربیت نے اس واقعے کو محض ایک انفرادی کارروائی کے بجائے ایک وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ بنا دیا ہے۔ بعض رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرکزی کردار بھارتی پاسپورٹ پر بین الاقوامی سفر کرتا رہا، جبکہ فلپائن اور دیگر ممالک سے منسلک معلومات نے تفتیش کے دائرے کو مزید وسیع کردیا ہے۔ خاص طور پر وہ رپورٹس جن میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ممکنہ کردار یا روابط کی نشاندہی کی گئی ہے، عالمی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ بین الاقوامی قوانین، ریاستی خودمختاری اور عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہوں گے۔ پاکستان پہلے ہی یہ مؤقف اختیار کرتا رہا ہے کہ بھارت ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو ایک پالیسی ٹول کے طور پر استعمال کرتا ہے، اور اب عالمی سطح پر اسی بیانیے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ قابلِ تشویش امر یہ بھی ہے کہ اس حملے پر بھارتی وزارتِ خارجہ کی خاموشی نے شکوک و شبہات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سفارتی روایت کے مطابق ایسے واقعات پر واضح موقف اور تعاون کی پیشکش کی جاتی ہے، مگر خاموشی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی تجزیہ کار اس خاموشی کو محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ 80 ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اور مسلسل سکیورٹی چیلنجز اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے، سرپرست نہیں۔ اس کے برعکس بھارت پر بارہا یہ ثابت ہوتا رہا ہے کہ وہ اپنی داخلی ناکامیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی محاذ پر عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ سڈنی واقعے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کردیا ہے کہ دہشت گردی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی خطرہ ہے۔ بھارت اور اس کے اداروں پر ایسے نیٹ ورکس کی سرپرستی کے الزامات کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں۔ عالمی برادری، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو اس معاملے کو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر دیکھنا ہوگا۔ پاکستان کا مطالبہ سادہ اور اصولی ہے، دہشت گردی کے خلاف دہرا معیار ختم کیا جائے۔ اگر کوئی ملک ریاستی سطح پر تشدد اور انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے تو اسے جواب دہ ہونا چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ عالمی امن اسی صورت ممکن ہے جب انصاف سب کے لیے برابر ہو۔
آخر میں، سڈنی حملہ صرف ایک ملک کا سانحہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگر دنیا نے اس واقعے سے سبق نہ سیکھا اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کیے تو ایسے واقعات مستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ پاکستان نے اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے، اب فیصلہ عالمی ضمیر کو کرنا ہے۔