اسلام آباد: توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنا جواب جمع کروادیا، جس میں انہوں نے اپنے اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی دانستہ نہیں کی۔
عمران خان نے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا کہ جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی گئی۔ یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مجھے 25 مئی کی شام کو عدالتی حکم کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے جواب میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں بابر اعوان کی مجھ سے ملاقات کروانے کا بھی کہا، تاہم عدالتی حکم کے باوجود انتظامیہ نے بابر اعوان کی مجھ سے ملاقات میں کوئی سہولت نہیں کی۔
جواب میں کہا گیا کہ 25 مئی کو 6:45 پر کارکنان کو دیا گیا وڈیو پیغام سیاسی کارکنان کی معلومات پر جاری کیا۔ احتجاج کے دوران جیمرز کی وجہ سے فون کے ذریعے رابطہ ناممکن تھا۔ عمران خان نے کہا کہ نادانستہ طور پر اٹھائے گئے قدم پر افسوس ہے۔
عمران خان نے کہا کہ 25 مئی کو ڈی چوک جانے کی کال حکومتی رویے کے خلاف پُرامن احتجاج کے لیے تھی۔ میری یا تحریک انصاف کی جانب سے کسی وکیل کو سپریم کورٹ میں زیر التوا کیس میں شامل ہونے کو نہیں کہا گیا۔ مجھے اب بتایا گیا ہے کہ اسد عمر نے جی نائن گراؤنڈ کے حوالے سے ہدایات دیں۔
عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے جواب میں عمران خان کا مؤقف تھا کہ اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ اداروں کی رپورٹس عدالتی حکم عدولی ثابت کرتی ہیں۔ اداروں کی رپورٹس حقائق کے خلاف ہیں۔ ایجنسیوں کی رپورٹس یک طرفہ ہیں۔ عمران خان کے دستخط سے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں استدعا کی گئی کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے بھی توہین عدالت کیس سے اپنا نام نکالنے کی استدعا کردی۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں کہا کہ 25 مئی کو ایڈووکیٹ فیصل فرید نے مجھے عدالتی نوٹس کا بتایا۔ بطور وکیل 40 سال عدلیہ کی معاونت میں گزارے ہیں۔
بابر اعوان نے جواب میں مؤقف اختیار کیا کہ اسد عمر نے رابطے پر زبانی ہدایات دیں۔ اسد عمر کی زبانی ہدایات پر سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی۔عدالت کو ارادی یا غیر ارادی طور پر گمراہ نہیں کیا۔ اچھی نیت سے عدالت کی معاونت کی۔ عدالتی حکم کے مطابق پی ٹی آئی لیڈرشپ سے میری اور فیصل چودھری کی ملاقات کا انتظام حکومت کی ذمے داری تھی۔ حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ 26 مئی کو عدالت کو حکومت کی طرف ملاقات کے انتظامات نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا۔عدالت نے 26 مئی کو قرار دیا کہ لانگ مارچ ختم ہو چکا ہے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ معاملے کی تفصیل میں جانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔