اسلام آباد: نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کردیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا، اس دوران عمران خان نے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پوچھا اٹارنی جنرل صاحب کیا ویڈیو لنک قائم ہوگیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی ویڈیو لنک قائم ہے۔
سماعت کے دوران وکیل وفاقی حکومت دلائل دے رہے تھے کہ اس دوران چیف جسٹس نے ہدایت کی، مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی سن سکیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا، کیا ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی؟ اس پر وکیل مخدوم علی نے بتایا جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوالیں، چیف جسٹس نے پوچھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست کب دائر ہوئی؟ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022 کو دائر ہوئی اور سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022 کو لگا، سپریم کورٹ میں درخواست کی سماعت 19 جولائی 2022 کو ہوئی۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی سے پوچھا، نیب ترامیم کا کیس اتنا لمبا عرصہ کیوں چلا تھا؟ کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟ مخدوم علی نے جواب دیا میرے علاوہ بہت سے وکلا نے دلائل دیے تھے اور کل 53 سماعتیں ہوئیں، نیب ترامیم کالعدم قرار دیتے وقت حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترامیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت پوچھا 1999 میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا، مارشل لاء کے فوری بعد ایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیا تھا۔
اس دوران عمران خان نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلاکر چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی، بانی پی ٹی آئی کے شکایت پر اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کردیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے؟ ایک قانون کو معطل کرکے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کرکے اسکے خلاف بینچ بناکر دیگر مقدمات سنتے رہنا استحصال نہیں، اس پر وفاق کے وکیل مخدوم علی نے کہا آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نقطہ اٹھایا تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا، اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ مندوخیل نے کہا صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے متاثرہ فریق میں پھر بل منظور کرنے والے حکومتی بینچ کے ارکان بھی آسکتے ہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے، جسٹس اطہر نے کہا قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کی شق 2 کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتاہے۔
مخدوم علی دلائل دیے بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر وہ آرڈیننس لائے، نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازع تھا، جسے ملی بھگت سے سپریم کورٹ لایا گیا۔
اس موقع پر عدالت نے مخدوم علی کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کردیں، آرڈینس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھوپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننس کے ساتھ صدر مملکت کو تفصیلی وجوہ نہیں لکھنی چاہئیں؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے وفاق کے وکیل مخدوم علی خان سے کہا مخدوم صاحب، کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کے لیے کوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022 کے فالواپ پر 2023 کی ترامیم بھی آئی تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھارہے ہیں، ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سے جواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کرلیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا، اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی؟ مخدوم علی نے جواب دیا، بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا پھر آگے بڑھیں۔
بعدازاں عدالت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا، جس کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں جب کہ بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں خود پیش ہونے کی درخواست دی تھی، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ وڈیو لنک پیشی کی اجازت دی۔