تحریر: محمد فیضان خان
جہاں اس پُرفتن دور میں انسان سے محبت، انسانیت کی فلاح و خیر خواہی اور انسانیت سے دوستی کے لئے بے لوث خدمات سرانجام دینے والے افراد کی کمی نہیں، وہیں آج کی دنیا کی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ جسمانی راحت ہی کو حقیقی خوش بختی اور کامیابی سمجھ لیا ہے اور انسان کے اصل تقاضوں کے نصف حصے کو نظرانداز کردیا ہے۔
اصل، واقعی نیک بختی اور کامیابی یہی ہے کہ انسان کی تمام خواہشات اور تقاضوں کا صحیح طور پر جواب دیا جائے۔ درحقیقت معاشرہ ان نیک سیرت و مخلص کردار لوگوں کی وجہ سے ہی قائم و دائم ہے جو انسان دوستی، بے لوث خدمات اور رواداری کے جذبے کو لے کر جی رہے ہیں۔ اگر دنیا سے انسانیت کے خیرخواہ بالکل ختم ہوجائیں تو جنگل کا نظام نافذ ہوجائے اور پُرامن و فلاحی معاشرہ کا وجود ناممکن ہوجائے۔
اس بات سے انکار کرنا درست نہ ہوگا کہ اس نفسا نفسی، مشینی اور پر فتن دور کے اندر جہاں انسان نے اپنی حقیقی قدر و قیمت کھودی ہے وہیں معاشرے میں میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو انسانی خدمات، انسان دوستی اور محبت کے جذبے سے سر شار ہوکر ہر مشکل حالات میں چاہے وہ کوئی قدرتی آفات ہوں یا کوئی عالمی وبا کی صورت ہو پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ بے خوف و خطر انسان کو ان مشکلات سے نکالنے اور نمٹنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
لیکن اس جدید مشینی دور نے انسان کی جسمانی راحت اور لذت کے لیے انتہائی جدید ترین وسائل فراہم کئے ہیں۔ اس نے انسانوں سے دوسروں کے لیے سوچنے تک کی فرصت چھین لی ہے کہ وہ دوسروں سے جذباتی تعلق برقرار رکھیں اور ان سے محبت برتیں۔ موبائل جیسی ٹیکنالوجی نے انسان دوستی، محبت، معاشرتی خدمات کو محض صرف سوشل میڈیا پر میسجز، پوسٹ اور اسٹیٹس تک محدود کردیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے انسان کے خیالات، احساسات کو اپنی گرفت میں کر رکھا ہے اور اسی کے مطابق انسان نے اپنے احساسات اور خیالات کو تبدیل کرنا شروع کردیا۔ جس کی بدولت انسان نفسا نفسی میں مبتلا ہوتا جارہا ہے اور یہ دور مذید پُرفتن ہوتا جارہا ہے۔
اگر ہمیں آج کا معاشرہ بے حساب مسائل کے ساتھ نبرد آزما نظر آتا ہے اور سعادت و کامیابی کی جانب جانے کا کوئی راستہ اسے نہیں سوجھ رہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج کا انسان دوسروں سے بیگانہ ہوکر تنہا اور صرف خود اپنے لیے سوچتا ہے۔
اس لیے انسانوں میں جذبہ محبت پروان چڑھانے اور اسے قوی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر انسانوں میں پائے جانے والے اس جذبے کا گلا گھونٹ دیا جائے اور انسان کے اس بنیادی تقاضے کا مثبت جواب نہ دیا جائے تو انسانوں کے لیے بے حساب مشکلات جنم لیں گی جن کا ازالہ کسی صورت ممکن نہ ہوگا۔
سب سے پہلا اثر جس نے آدمی کو خود سے اور دوسروں سے بیگانہ کیا ہے اور اسے ایک تنہا انسان بنایا ہے، وہ خود سے بیگانگی کا شرمناک عفریت ہے جو تمام نفسیاتی اور اجتماعی مشکلات، بے لگام آزادی، ناتوانی، گوشہ نشینی، بدگمانی، اقدار اور اعتقادات سے محرومی کو جنم دیتا ہے۔
اس بنا پر اگر کوئی معاشرہ خوش بختی اور کامرانی کا حصول چاہتا ہے تو اس کا راستہ انسانوں میں باہمی محبت اور نوع دوستی کی پرورش ہے۔ اگر انسان میں یہ صلاحیت تقویت پالے تو وہ نہ صرف دوسروں سے محبت کرے گا بلکہ اس کی فطری خواہشات کی تسکین بھی ہوگی اور وہ خود بھی دوسروں کی محبت سے مستفیض ہوگا۔
وہ لوگ واقعی بڑے باہمت، قابل داد و ستائش ہیں جو دوسروں کی خدمت کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اگرچہ کم ہیں، لیکن ہیں ضرور۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً درد دل رکھنے والے افراد کے انسانوں کے لئے قربانیوں کے واقعات ہمیں سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان کو فی زمانہ جتنی انسانیت کی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہر انسان اگر یہ عہد کرلے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو ضرور دوسروں کی مدد کرے گا، مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی چھوٹی بڑی ضروریات حل کرنے میں تعاون کرے گا۔ کسی غریب طالب علم کی تعلیم کا خرچ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی نوکری کا انتظام، کسی غریب بیمار کے علاج کی صورت مدد کرے گا۔ تو پرامن اور فلاحی معاشرے کا وجود ممکن ہوسکے گا ۔ اور انسان دوستی کی بہترین مثالیں قائم ہو سکیں گی۔