برسبین: نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈی این اے کا جائزہ لے کر کسی بھی بچے کے قد کے حوالے سے باآسانی درست پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔
یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ میں قد کے حوالے سے کیا جانے والا یہ جینیاتی تجزیہ اس نوعیت کا اب تک کا سب سے بڑا مطالعہ ہے جس میں 281 تحقیقوں سے 50 لاکھ سے زائد افراد کے ڈی این اے کو استعمال کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق تحقیق نے قد کے مختلف ہونے میں جینیاتی تفریق کے فہم کے متعلق موجود وسیع خلاء کو پُر کیا ہے۔
تحقیق میں شامل 10 لاکھ سے زائد افراد کے آبا و اجداد غیر یورپی (افریقی، مشرقی ایشیائی، ہسپانوی یا جنوبی ایشیائی) تھے۔
تحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر لوئیک یینگو کا کہنا تھا کہ لوگوں میں قد کے مختلف ہونے کی وجہ کا 80 فیصد تعین جینیاتی عوامل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مطالعے میں ہمیں معلوم ہوا کہ 12 ہزار متغیرات (ویرینٹ) نے قد میں فرق کی 40 فیصد وجوہ پر روشنی ڈالی، جس کا مطلب ہے کہ ہم نے قد کی مزید درست پیش گوئی کے لیے ڈی این اے کے استعمال کا ایک نیا باب کھول لیا ہے۔
ڈاکٹریینگو کا کہنا تھا کہ فی الوقت بچے کے قد کی پیش گوئی اس کے والدین کے اوسط قد کو دیکھتے ہوئے کی جاتی ہے لیکن اس جینوم (ماں باپ سے ملنے والا کروموسوم کا سیٹ) ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کے ڈاکٹر قد کا اندازہ بہتر طور پر لگاسکیں گے۔