کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ شارعِ فیصل ہے جو چھوٹا گیٹ پر اس مقام سے شروع ہوتی ہے جہاں قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے آنے والی سڑک ملتی ہے۔ یہ شارع ڈرگ روڈ بلوچ کالونی نرسری اور گورا قبرستان سے ہوتی ہوئی کلب روڈ پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ کلب روڈ پر بائیں جانب سندھ کلب اور اس کے مقابل ہوٹل میٹروپول کی عمارت ہے۔ یہ عمارت ماضی میں کراچی کی سطوت کا نشان تھی، جہاں غیرملکی مہمان قیام کرنا اپنی شان سمجھتے تھے۔
اس ہوٹل کا افتتاح شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے 1951 میں کیا تھا۔ ہوٹل کی افتتاحی تقریب میں اس وقت کے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے بھی شرکت کی تھی۔ اس عمارت کی نچلی منزل پر پان امیریکن اور کے ایل ایم سمیت اس وقت تک کی دنیا کی بڑی فضائی کمپنیوں کے دفاتر قائم تھے۔ اس وقت تک برطانوی رنگ برصغیر سے مکمل طور پر اترا نہیں تھا۔ اس ہوٹل میں کراچی کا پہلا میوزک اینڈ ڈانس فلور قائم کیا گیا۔ ساتھ ہی نائٹ کلب "سمر” بھی قائم کیا گیا جہاں ایک جانب مے خانہ موجود تھا اور Gillepsie سمیت اس وقت کے نابغہ روزگار موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور وہاں آنے والوں کو محظوظ کرتے تھے۔ معروف ادیب اور سماجی شخصیت اقبال دیوان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، "اس ہوٹل کے لگژری سوئیٹ میں بھٹو صاحب نصرت بھٹو سے شادی کے بعد ایک سال مفت مہمان رہے تھے۔ شادی کی یہ خبر کچھ دنوں تک خاندان سے اور پہلی بیگم سے خفیہ رکھی گئی تھی۔ یہ بات ہمیں کاﺅس جی نے خود بتائی تھی۔ جس کی کئی دفعہ تصدیق بھٹو صاحب کے ہندو دوست پی کے شاہانی نے بھی کئی نجی محافل میں کی۔”
اس عظیم ہوٹل کے مالک سائرس منوالا کے پوتے فیروز جمال نے ہوٹل میٹرو پول سے متعلق اپنی یادداشتیں بہت اچھے انداز میں پیش کیں۔ فیروز جمال نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیلیفورنیا میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ٹریول ایجنسی میں ملازمت کرکے کیا تھا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وطن واپس آکر انہوں نے اپنے خاندانی بزنس کو سنبھالا۔ ابتدا میں انہوں نے جی ایس اے، ٹی ڈبلیو اے، ایئر کینیڈا، ایتھوپین ایئرلائنز، وارق، کیتھے پیسیفک ایئرویز، ڈریگن اور او اے جے جیسے ادارے شامل تھے۔ دو برس تک اپنی ابتدائی تربیت کے بعد ان کی ذمے داریاں تبدیل ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے خاندانی ہوٹل کا نظم و نسق سنبھال لیا، جو کراچی میں لفتھینسا کے کریو کی میزبانی کیا کرتا تھا۔ ہوتل میٹروپول نے 1998 میں لفتھینسا کے خاتمے تک اس کے عملے کی میزبانی کی۔ ستمبر 2000ء میں جب کیتھے پیسیفک پاکستان میں آن لائن ہوئی تو انہوں نے اپنی مکمل توجہ ایوی ایشن سروسز پر مرکوز کردی، لیکن 2004ء میں استعفیٰ دے دیا۔ وہ اس وقت اس وقت کیتھے پیسیفک ایئرویز کے کنٹری مینیجر کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
فیروز جمال نے اپنی یاد داشت شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں، "یہ بات 1949 کی ہے جب میرے دادا کراچی کینٹونمنٹ بورڈ کے نائب صدر تھے اور ان کی شادی میری دادی میہرا مینوالا سے ہوچکی تھی۔ اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ کراچی جیسے شہر کو ایک اچھے ہوٹل کی ضرورت ہے۔ اس بات کا تذکرہ انہوں نے ڈنشاء خاندان سے بھی کیا۔ جس جگہ اس وقت میٹروپول ہوتل کی عمارت ہے وہاں بہت سے مکانات واقع تھے، جو ڈنشاء خاندان کی ملکیت تھے۔ پھر ڈنشاء خاندان اور میرے دادا نے ہوتل کے قیام کی منصوبہ بندی کی۔ ڈنشاء خاندان نے انہیں پندرہ سال کی لیز پر زمین فراہم کردی اور کہا کہ وہ اپنا کام شروع کریں اور اس جگہ عمارت کی تعمیر کا آغاز کردیں۔”
فیروز جمال بتاتے ہیں، "منصوبے کے تحت ڈنشاء خاندان کی دی ہوئی جگہ پر ہوٹل کی تعمیر 1949 میں شروع کی گئی اور عمارت کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد شاہ ایران نے 1951 میں ہوٹل کا افتتاح کیا۔” وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، "ہوتل کا افتتاح اگرچہ 1951 میں کردیا گیا تھا، تاہم ہوٹل کی عمارت مکمل تعمیر ہونے کے بعد 1954 میں عوام کے لیے باقاعدہ طور پر کھول دیا گیا۔ ہوٹل میٹروپول کے قیام کے بعد سے 1965 تک کراچی میں ساحل کے ساتھ بیچ لگژری ہوٹل اور ملیر میں گرانڈ ہوتل بھی قائم ہوئے۔ اگرچہ اس وقت تک ہوٹل پیلس بلاشبہہ بہترین تھا، لیکن میٹروپول ان دنوں میں ہوٹل انڈسٹری میں جدت لایا۔”
"1965 میں بین الاقوامی سطح کے ہوٹل متعارف ہونے کے بعد ہوٹل انڈسٹری پر ہماری گرفت کمزور پڑتی گئی۔ بدقسمتی سے 1967 میں میرے دادا کا انتقال ہوگیا اور خاندان کے افراد کی توجہ ہوٹل پر کم ہوتی گئی۔ اور کچھ عرصے بعد 1971 کی جنگ چھڑ گئی، اور اس جنگ سے ملکی معیشت مزید ابتری کی جانب چلی گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے ہم نے ہوٹل کی عمارت کے آدھے حصے کو دفاتر میں تبدیل کردیا تاکہ گرتی ہوئی آمدنی کو سہارا دیا جاسکے۔” فیروز جمال نے بتایا۔
فیروز جمال کا کہنا تھا کہ ہوتل میٹروپول بند ہونے کے بعد بھی سوئس فضائی کمپنی لفتھینسا کا عملہ آکر ٹھہرا کرتا تھا۔ اس ایئرلائن کا عملہ ہوتل کے قیام سے جب بھی کراچی پہنچیا، یہیں رکا کرتا تھا۔ عملے کے ارکان کے لیے پوری ایک منزل وقف تھی، جہاں ایئرلائن کے عملے کے سوا کسی کو قیام یا داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ ایئرلائن کے عملے کا اس عمارت میں اپنا ریسٹورنٹ اور کچن تھا۔ یہ ریسٹورنٹ اور کچن 1998 میں اس وقت تک قائم رہے، جب ہم اس ہوتل کے مستقبل کیلئے کسی فیصلے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
فیروز جمال نے مزید بتایا کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد لفٹھینسا نے پاکستان کے لیے اپنی پروازیں بند کردیں، جیسا کہ سوئس ایئر نے بھی کیا تھا۔ نائن الیون کا واقعہ 2001 میں پیش آیا، اور اس کے بعد دنیا بھر میں آنے والے کاروباری انتحطاط کو دیکھتے ہوئے ہمارے خاندان نے فیصلہ کیا کہ ہوٹل کو بند کردیا جائے اور ساتھ ہی عمارت کو منہدم کرنے کا کام شروع کردیا گیا۔ ہم چاہتے تھے کہ اس کی تعمیر نو خود کریں، لیکن یہ ارادہ 2006-2007 میں ترک کردیا۔ اس وقت تک آدھی عمارت کو گرایا جاچکا تھا۔”
فیروز جمال، جو 1994 سے 2004 تک اس ہوٹل کا نظم و نسق سنبھالتے رہے تھے، اپنے یادداشتیں مجتمع کرتے ہوئے کہتے ہیں، "میرا اور میری اہلیہ کا ایک اپارتمنٹ قریب ہی واقع تھا۔ یہ ہمارا پہلا گھر تھا۔ جب سے ہوٹل کا انتظام میں نے سنبھالنا شروع کیا، جب سے ہم اسی گھر میں مقیم رہے۔ میری اہلیہ اور ان کی ایک دوست نے فور سیزنز نامی چینی ریسٹورنٹ کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کی۔ یہ ریسٹورنٹ ان نائٹ کلبز میں سے ایک تھا، جو ضیاء الحق کے دور حکومت کے بعد قائم ہوئے۔ اس زمانے میں لوگوں کو سوچنے کی آزادی تھی۔ میرا خیال ہے ہم نے یہ ہوٹل ف1998/99 میں کھولا تھا، جو ہفتے میں صرف ایک دن یعنی جمعے کو فعال ہوتا تھا۔ اپنے قیام کے ابتدائی دو برسوں تک یہ ہوٹل انتہائی کامیاب رہا۔”
ہوتل میٹروپول کے نئے مالکان سے متلق بات کرتے ہوئے فیروز جمال کہتے ہیں، "نئے مالکان پرعزم ہیں اور اپنی وسیع سوچ کے باعث اس عمارت کی سائٹ سے انصاف کریں گے۔ نئے مالکان اس جگہ پر اعلیٰ سطح کا لگژری ہوتل قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی بات چیت فیئرمونٹ اور فور سینز کے ساتھ جاری ہے۔
نئے مالکان ایک بہت بڑے گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس جگہ پر اعلیٰ ترین عالمی معیار کا ایک ایسا شہر بسانا چاہتے ہیں جو میگا سٹی کی حدود میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنا مکمل نظام و انتظام رکھتا ہو اور اس شہر کی تعمیر کی ذمے داری جاپان میں قائم عالمی طور پر تسلیم شدہ تعمیراتی کمپنیوں کو سونپی جائے گی۔
کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مالکان کا ارادہ ہے کہ وہ یہاں تمام تر شہری سہولیات سے مزین عالمی سطح پر تسلیم شدہ چھ ستاروں والی لگژری ہوٹل قائم کریں، جس میں نہ صرف دفاتر کے لیے خاص جگہیں مختص ہوں بلکہ اعلیٰ ترین رہائش رہاش کا پروجیکٹ بھی اس میں شامل ہو۔
آج مجھے اٹلی کا نوجوان مصور بہت یاد آرہا ہے۔ جوزف نامی یہ فنکار کراچی کی معدوم ہوتی عمارتوں کو اپنے کینوس پر منتقل کرنے کراچی آیا تھا۔ جوزف نے دیگر عمارتوں کے ساتھ ساتھ ہوٹل میٹروپول کے معدوم ہوتے وجود کو بھی اپنے رنگوں سے آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں اس کی تصاویر یاد دلائیں کی کہ کبھی یہاں یہ عظیم عمارات قائم تھیں۔ جوزف اس بات کا شاکی ہے کہ کراچی میں پرانی عمارتیں تیزی سے تباہی کی طرف جارہی ہیں۔ ان تباہ حال عمارتوں کی بحالی یا ان کی تزئین و آرائش کی طرف نہ تو شہری یا صوبائی حکومت کچھ کرنے کو تیار ہے، نہ ہو مالکان کی جانب سے اس جانب کوئی دھیان دیا جارہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ان عمارتوں کی تحفیظ کی جائے۔ ہوٹل میٹروپول کی تصویر اس نے محض تین دن میں بنائی ہے۔
ایک جانب تو غیرملکی فنکار ہیں جو اس گم ہوتے کراچی اور اس کی گم ہوتی خوبصورت نشانیوں کو سنبھالنے کا بیرا اٹھائے اٹلی کا فنکار یہاں پہنچ گیا۔ دوسری جانب اس شہر کی انتظامیہ اور صوبائی حکومت ہے، جو کسی طور پر بھی ماضی کی خوبصورت عمارتوں کو محفوظ کرنے میں اپنا کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاہور کے مال روڈ کی طرز پر کراچی کے قدیم علاقوں میں قائم خوبصورت عمارتوں کی حفاظت اور تزئین و آرائش شہری یا صوبائی حکومت اپنے ذمے لیتی۔ لیکن کسی کی اس طرف توجہ نہیں۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ ان عمارتوں میں رہنے والے بھی ان کی تزئین و آرائش تو ایک طرف، مرمت تک کرانے کو تیار نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تمام عمارتوں، سڑکوں اور دیگر اشیاء کی حفاظت کی جائے جو شہر کی خوبصورتی کا باعث ہیں۔ اس طرح نہ صرف شہر خوبصورت نظر آئے گا بلکہ ہم اپنے قدیم ورثے کو بھی اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرلیں گے۔