تحریر: اویس حمید خان
انبیا کی سرزمین فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقے کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا اور جس کے بیش تر حصے پر اب اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1948 سے پہلے یہ تمام علاقے فلسطین کہلاتے تھے جوخلافتِ عثمانیہ میں قائم رہے مگر اس کے بعد انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔
1948 میں یہاں کے بیش تر علاقوں پر اسرائیلی حکومت قائم کی گئی اس کا داراالحکومت بیت المقدس جس پر 1967 میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا اور وہ اسے یروشلم کہتے ہیں۔ یہ شہر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک مقدس ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول یہیں ہے۔ فلسطین کی جدوجہد بہت پرانی ہے۔
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہ فلسطین کے شہر القدس میں واقع ہے۔ اس کو القدس کا نام اس لئے دیا گیا کہ اس زمین میں انبیاء کرام کے مزارات ہیں۔ ۔کعبۃ اللہ کے چالیس سال بعد اس کی بنیاد آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے رکھی۔ اس کی تعمیر سام بن نوح نے کی۔
حضرتِ نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کا قبیلہ 2500 قبل مسیح میں یہاں آ کر آباد ہوا۔ پھر آج سے 4000 سال قبل حضرتِ ابراہیم علیہ السلام یہاں آکر آباد ہوئے۔ آپؑ کے بیٹے اسحاق علیہ السلام نے اس خطے کو آباد کیا۔ پھر حضرتِ یعقوبؑ، یوسفؑ، داودؑ، سلیمانؑ، یحییٰؑ، موسیٰ ؑ،عیسی علیہ السلام نے اس سرزمین کو آباد کیا۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ پیغمبروں کی سرزمین کہلاتا ہے۔
حضرت سموئیل جو اللہ کے نبی تھے اور پہلے اسرائیلی بادشاہ تھے، انہوں نے کافی عرصہ یہاں حکومت کی۔ ان کے بعد حضرت طالوت بادشاہ بنے۔ پھر ایک لمبے عرصے بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی سنگِ بنیاد اس خطے میں رکھی جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کنبہ لگایا تھا۔ مگر تعمیر ختم ہونے سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو عمارت کی تکمیل کی وصیت فرمائی۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات اور انسان کے گروہ سے عمارت کو مکمل کیا۔اب جسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔
سلیمان علیہ السلام نے اس علاقے پر حکمرانی کی۔ ان کی وفات کے بعد اسرائیل متحدہ ریاست دو حصوں سامریہ اور یہودیہ میں تقسیم ہوگئی۔ اور یہیں سے ان کے زوال کا وقت شروع ہوگیا اور ایک عرصے تک باہم دست و گریباں رہیں۔ 332 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے ان علاقوں پر قبضہ کیا اور یہاں ایک یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اس زمانے میں اس خطے کا نام یروشلم سے فلسطین پڑگیا۔ ایک مرتبہ پھر روم کے بادشاہ نے ہیکلِ سلیمانی پر حملہ کیا اور یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب فلسطین فتح کیا گیا اس وقت وہاں عربی نسل کے قبائل آباد تھے۔ امیرالمومنین حضرت فاروقِ اعظم خودؒ بیت المقدس تشریف لائے اور وہ مقام دریافت کیا جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج کی رات آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے جسے گنبدالصخرۃ کہا جاتا ہے۔ آپ نے وہاں کئی دن قیام فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے آذان بھی دلوائی۔
اس کے بعد کئی سو سال تک بیت المقدس مسلمانوں کے پاس رہنے کے بعد تقریبا گیارہویں عیسوی میں عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ پھر صلاح الدین ایوبی نے مسلمانوں کے قبلہ کی آزادی کے لئے تقریبا16جنگیں لڑیں۔ 1187میں دوبارہ فتح کرنے میں کامیاب ہوا۔
اس کے بعد پہلی جنگِ عظیم تک خلافتِ عثمانیہ کے تحت رہا۔ 1970 دوسری جنگِ عظیم میں بیت المقدس پھر عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اور ان کے مظالم میں اضافہ ہوا۔ 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔1948میں اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کردیا گیا، لیکن فلسطین کا مسئلہ حل نہ کیا گیا۔ عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کافی لڑائیاں ہوئیں۔ معاملہ جوں کا توں رہا اور فلسطینی آج بھی اپنا خون بہا رہے ہیں۔ یہاں ایک بات جو قابلِ غور ہے اور بہت سے لوگ اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ جو گولڈن رنگ کا گنبد دکھایا جاتا ہے وہ اصل میں گنبد الصخرۃ ہے اس کے آگے سرمئی گنبد والی مسجد حقیقتا مسجد اقصیٰ ہے اور یہی مسجد مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ آخرمیں دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے قبلہ اول کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اس میں عملاً اپنا حصہ ملانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین