1940ء میں لاہور میں رہنے والے ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس” کے نام سے ایک چائے خانہ شروع کیا۔ بوٹا سنگھ نے 1940ء سے 1944ء تک اس چائے خانہ اور ہوٹل کو چلایا، مگر اس کا کام کچھ اچھے طریقے سے نہ جم سکا۔
بوٹا سنگھ کے چائے خانہ پر دو سکھ بھائی سرتیج سنگھ بھلا اور کیسر سنگھ بھلا، جو گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے، اپنے دوستوں کے ہمراہ اکثر چائے پینے آتے تھے۔ 1940ء میں یہ دونوں بھائی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کر چکے تھے اور کسی کاروبا ر سے متعلق سوچ رہے تھے کہ ایک روز اس چائے خانہ پر بیٹھے۔ اس کے مالک بوٹا سنگھ سے بات چل نکلی اور بوٹا سنگھ نے یہ چائے خانہ ان کے حوالے کر دیا۔
پاک ٹی ہاؤس لاہور میں مال روڈ پر واقع ہے، جو کہ انار کلی بازار اور نیلا گنبد کے قریب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد حافظ رحیم بخش صاحب جالندھر سے ہجرت کر کے لاہور آئے تو انہیں پاک ٹی ہاؤس 79 روپے ماہانہ کرایہ پر ملا۔ یہ چائے خانہ "انڈیا ٹی ہاؤس” کے نام سے ہی چلتا رہا، بعد میں "انڈیا” کاٹ کر "پاک” کا لفظ لکھ دیا گیا۔
دبلا پتلا بدن، دراز قد، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، سادہ لباس، کم سخن، حافظ رحیم بخش کو دیکھ کر دلی و لکھنؤ کے قدیم وضع دار بزرگوں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ حافظ صاحب کے دو بڑے بیٹوں علیم الدین اور سراج الدین نے پاک ٹی ہاؤس کی گدی کو سنبھالا۔ لاھور کے گم گشتہ چائے خانوں میں سب سے مشہور چائے خانہ پاک ٹی ہاؤس تھا، جو ایک ادبی، تہذیبی اور ثقافتی علامت تھا۔ پاک ٹی ہاؤس شاعروں، ادیبوں، نقادوں کا مستقل اڈہ تھا جو ثقافتی، ادبی محافل کا انعقاد کرتی تھیں۔ پاک ٹی ہاؤس ادیبوں کا دوسرا گھر تھا اور کسی کو اس سے جدائی گوارا نہیں تھی۔ وہ پاک ٹی ہاؤس کے عروج کا زمانہ تھا۔
ان دنوں لاھور میں دو بڑی ادبی تنظیمیں، حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنفین ہوا کرتی تھیں۔ صبح سے لیکر رات تک ادبی محفلیں جمی رہتی تھیں یہاں ملک بھر سے نوجوان ان شخصیات سے ملاقات کرنے کیلئے آتے تھے۔ اتوار کو ٹی ہاؤس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ جو کوئی آتا، کرسی نہ بھی ہوتی تو کسی دوست کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا۔ یہاں شعر و ادب پر بڑے شوق سے بحثیں ہوتی تھیں۔
ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سوائے چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا۔ کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے، لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا۔ ایسا کبھی نہیں تھا کہ کسی دوست کی جیب خالی ہے تو وہ ٹی ہاؤس کی چائے اور سگریٹوں سے محروم رہے۔ جس کے پاس پیسے ہوتے تھے وہ نکال کے میز پر رکھ دیتا تھا، جس کی جیب خالی ہوتی علیم الدین صاحب اس کے ساتھ بڑی فراخ دلی سے پیش آتے تھے۔ اس وقت کے ادیبوں میں سے شاید ہی کوئی ادیب ہو جس نے پاک ٹی ہاؤس کی چائے کا ذائقہ نہ چکھا ہو۔
پاک ٹی ہاؤس کا بڑا دلکش ماحول ہوتا تھا۔ ئائیلوں والا چمکیلا فرش، چوکور سفید پتھر کی میزیں، دیوار پر لگی قائدآعظم کی تصویر، گیلری کو جاتی ہوئی سیڑھیاں، بازار کے رخ پر لگی شیشے دار لمبی کھڑکیاں جو گرمیوں کی شاموں میں کھول دی جاتی تھیں اور باہر لگے درخت بھی دکھائی دیتے تھے۔ دوپہر کو جب دھوپ پڑتی تو شیشوں سے گلابی روشنی اندر آتی تھی۔
ٹی ہاؤس کے اندر کونے والے کاؤنٹر پر علیم الدین کا مسکراتا ہوا سانولا چہرا ابھرتا اور بل کاٹتے وقت پیچھے کہیں دھیمے سروں میں ریڈیو بج رہا ہوتا تھا۔ علیم الدین کی دھیمی اور شگفتہ مسکراھٹ تھی، اس کے چمکیلے ہموار دانت موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ ٹی ہاؤس کی فضا میں کیپسٹن سگریٹ اور سگار کا بل کھاتا ہوا دھواں گردش کرتا تھا۔ ٹی ہاؤس کی سنہری چائے، قہوہ اور فروٹ کیک کی خوشبو بھی دل کو لبھاتی تھی۔ کبھی کبھی کاؤنڑ پر رکھا ہوا ٹیلیفون یک دم بج اٹھتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے آنے والوں کو پاک ٹی ہاؤس نے اپنی گود میں پناہ دی۔ کسی نے کہا میں انبالے سے آیا ہوں، میرا نام ناصر کاظمی ہے، کسی نے کہا، میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں، میرا نام اشفاق احمد ہے، کسی نے کہا، میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ بڑے چمکیلے اور روشن دن تھے۔ ادیبوں کا سارا دن ٹی ہاؤس میں گزرتا تھا۔ ذیادہ تر ادیبوں کا تخلیقی کام اسی زمانے میں انجام پایا تھا۔ ناصر کاظمی نے بہترین غزلیں اسی زمانے میں لکھیں، اشفاق احمد نے گڈریا اسی زمانے میں لکھا۔ شعر و ادب کا یہ تعلق پاک ٹی ہاؤس ہی سے شروع ہوا تھا۔
صبح آٹھ بجے پاک ٹی ہاؤس میں کم لوگ آتے تھے۔ ناصر کاظمی سگریٹ انگلیوں میں دبائے، سگریٹ والا ہاتھ منہ کے ذرا قریب رکھے ٹی ہاؤس میں داخل ہوتے تھے اور اشفاق احمد سائیکل پر سوار پاک ٹی ہاؤس آتے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوں تو دائیں جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ایک صوفہ لگا ھوا تھا۔ سامنے ایک لمبی میز تھی۔ میز کی تینوں جانب کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، پروفیسر سید سجاد رضوی، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد وغیرہ کی محفل شام کے وقت اسی میز پر لگتی تھی۔ اے حمید، انور جلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیا وغیرہ قائد آظم کی تصویر کے نیچے جو لمبی میز اور صوفہ بچھا تھا وہاں اپنی محفل سجاتے تھے، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم بھی وقت نکال کر پاک ٹی ہاؤس آتے تھے۔ ھر مکتبہ فکر کے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی الگ محفل بھی سجاتے تھے۔ سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے۔
ساحر لدھیانوی بھارت جا چکا تھا اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام امر کر رہا تھا۔ شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے، ادب اپنے عروج پر تھا۔ اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس زمانے کی بوئی ہوئی زرخیز فصل کو ہم آج کاٹ رہے ہیں۔
پاک ٹی ہاؤس کئی نشیب و فراز سے گزرا اور کئی مرتبہ بند ہو کر خبروں کا موضوع بنتا رہا۔ عرصہ دراز تک اہل قلم کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے بعد 2000ء میں جب ٹی ہاؤس کے مالک نے اسے بند کرنے کا اعلان کیا تو ادبی حلقوں میں تشویس کی لہر دوڈ گئی اور اہل قلم نے باقاعدہ اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کا اعلان کر دیا۔
دراصل ٹی ہاؤس کے مالک نے یہ بیان دیا تھا کہ "میرا ٹی ہاؤس میں گزارا نہیں ہوتا۔ میں کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔” ادبی تنظیموں نے مشترکہ بیان دیا کہ ٹی ہاؤس کو ٹائروں کی دکان بننے کی بجائے ادیبوں کی بیٹھک کے طور پر جاری رکھا جائے، کیونکہ اس چائے خانے میں کرشن چندر سے لے کر سعادت حسن منٹو تک ادبی شخصیاب محفلیں جماتی رہی ہیں۔
ادیبوں اور شاعروں نے اس چائے خانے کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا۔ یہ کیس عدالت میں بھی گیا اور بعض عالمی نشریاتی اداروں نے بھی احتجاج کیا۔ آخر کار 31 دسمبر 2000ء کو یہ دوبارہ کھل گیا اور اہل قلم یہاں دوبارہ بیٹھنے لگے، لیکن 6 سال کے بعد مئی 2006ء میں یہ دوبارہ بند ہو گیا۔ اس بار ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس طرح یہ تاریخی، ادبی اور ثقافتی ورثہ نصف صدی تک اہل قلم کی میزبانی کرنے کے بعد اپنے پیچھے علم و ادب کی دنیا کی کئی داستانیں چھوڑ گیا۔ اب اس کے بند شٹر اور اوپر لکھا ہوا بورڈ صرف ماضی کے ایک ادبی ورثہ کی یاد دلانے لگا۔
نگینہ بیکری، چوپال، شیزان اور عرب ہوٹل کی طرح یہ بھی ماضی کا حصہ بن گیا۔ پاک ٹی ہاؤس کی بحالی لاہور کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا ایک مسلسل درینہ مطالبہ تھا۔ پاک ٹی ہاؤس کا افتتاح 14 اگست کو کیا جانا تھا، لیکن نہ ہو سکا۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر افتتاح کی نئی تاریخ 6 ستمبر رکھی گئی لیکن بے سود۔ 20 اکتوبر 25 اکتوبر اور 25 دسمبر 2012ء کو کیے گئے وعدے بھی وفا نہ ہوسکے۔ پاک ٹی ہاؤس کی جدائی ختم ہوئی اور وصل کا وقت آ گیا۔ اس وقت کی پنجاب حکومت نے اس کی بحالی کا وعدہ پورا کیا اور میاں نواز شریف نے بالآخر 23 مارچ کو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پی کر اور اس کا افتتاح کر کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس کے دروازے ایک بار پھر کھول دیے۔
اے حمید ایک جگہ لکھتے ہیں، "میں اور اشفاق احمد دیر تک ٹی ہاوس میں بیٹھے گزرے زمانے کو، گزرے زمانے کے چہروں کو یاد کرتے رہے، کیسے کیسے لوگ تھے، کیسے کیسے چمکیلے چہرے تھے، جو ادب کے آسمان پر ستارے بن کر چمکے اور پھر اپنے پیچھے روشنی کی لکیریں چھوڑ کر نظروں سے غائب ہو گئے۔ کبھی ٹی ہاوس کے کاؤنٹر پر رکھے گلدان میں نرگس اور گلاب کے پھول مہکا کرتے تھے۔ شیشوں میں سے ان پر سردیوں کی دھوپ پڑتی تو وہ بجلی کے بلب کی طرح روشن ہو جاتے۔ اب کاؤنٹر پر نہ گلدان ہے نہ نرگس اور گلاب کے پھول، صرف میں اور اشفاق احمد میز کے آمنے سامنے سر جھکائے بیٹھے پرانے دنوں کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک دن آئے گا کہ اس میز پر کوئی اور بیٹھا ہمیں یاد کر رہا ہوگا۔”
اے حمید تو پاک ٹی ہاؤس میں محفل جمانے کی حسرت لیے اگلے جہان روانہ ہو گئے، لیکن ہم لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔