کرکٹ کو پاکستان میں انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔ کرکٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے کھیل سے بڑھ کر کارپوریٹ حیثیت اختیار کرلی ہے۔ میں نے سوچا آج پاکستان میں کرکٹ کی پیدائش کو زیر بحث لایا جائے۔
پاکستان کی موجودہ سرزمین پر سب سے پہلا کرکٹ میچ کراچی میں کھیلا گیا۔ یہ میچ 22 نومبر 1935 کو کراچی میں سندھ اور آسٹریلیا کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا تھا۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے 5000 تماشائی آئے۔ یہ میچ برطانوی ہندوستان کے دور میں انگریزوں کے زیر انتظام کھیلا گیا۔ 1947 میں جب پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اس وقت متحدہ ہندوستان میں کئی کھلاڑی تھے جنہوں نے بعد میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی۔ ان کھلاڑیوں میں وزیر علی، فضل محمود، عبدالحفیظ کاردار، خان محمد ور نذر محمد وغیرہ شامل تھے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو ایسے کرکٹرز کی خدمات حاصل ہوئی تھیں جنہوں نے ہندوستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی تھی۔ ان کا تجربہ پاکستان کرکٹ کے بہت کام آیا۔
پاکستان میں پہلا فرسٹ کلاس میچ دسمبر 1947 میں سندھ اور مغربی پنجاب کے درمیان باغ جناح لاہور میں کھیلا گیا۔ ان دونوں ٹیموں میں شامل کرکٹرز کی اکثریت نے آگے چل کر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ شہرہ آفاق فضل محمود بھی اس میچ میں کھیلے۔ اگرچہ انہیں آسٹریلیا جانے والی ہندوستانی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا لیکن انہوں نے پاکستان کو ترجیح دیتے ہوئے دورے پر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ آنے والے سیزن میں ویسٹ انڈیز، سیلون (موجودہ سری لنکا) اور ایم سی سی کی ٹیمیں غیر سرکاری ٹیسٹ کھیلنے پاکستان آئیں۔ نیل ہاورڈ کی قیادت میں یہاں آنے والی ایم سی سی ٹیم کے خلاف کراچی کے غیر سرکاری ٹیسٹ میں 4 وکٹوں کی جیت نے پاکستان کے لئے ٹیسٹ کرکٹ تک راہ ہموار کی اور پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ کے استحقاق تک رسائی حاصل ہوئی ۔اس غیرسرکاری ٹیسٹ میں پاکستان کی جیت کے مرکزی کردار عبدالحفیظ کاردار، حنیف محمد، فضل محمود اور خان محمد تھے۔ یوں پاکستان کو دنیا کے ساتویں ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا اعزار حاصل ہوا۔
16 اکتوبر 1952 وہ دن تھا، جب ساتویں کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ 1878 میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے بعد 1889 میں ساؤتھ افریقہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ جبکہ 1928 میں نیوزی لینڈ، 1930 میں ویسٹ انڈٰیز اور 1932 میں ہندوستان کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ کا استحقاق ملنے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نے 53 -1952 میں پہلے سرکاری دورے کے لئے پڑوسی ملک بھارت کا انتخاب کیا۔ عبدالحفیظ کاردار کو پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کی قیادت میں بھارت کے دورے کے لئے منتخب کی جانے والی 17 رکنی ٹیم میں نذر محمد، حنیف محمد، وزیر محمد، وقار حسن، امتیاز احمد، مقصود احمد، انورحسین، امیر الٰہی، محمود حسین، خان محمد، فضل محمود، اسرار علی، خورشید شیخ، خالد قریشی، ذوالفقار احمد اور روسی ڈنشا شامل تھے۔ حنیف محمد ٹیم کے سب سے کم عمر کھلاڑی تھے اور اس وقت وہ 18 سال کے بھی نہیں ہوئے تھے، جبکہ 44 سالہ امیر الٰہی سب سے سینئر کھلاڑی تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بچہ ٹیم اپنی ناتجربہ کاری کے سبب ہندستان کیلئے ترنوالہ ثابت ہوگی، لیکن ٹیم نے شائقین اور مبصرین کے سارے اندازے غلط ثابت کر دیے۔ سات ہفتوں کے اس دورے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو اگرچہ ٹیسٹ سیریز میں دو ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پاکستانی کھلاڑیوں، خصوصاً حنیف محمد، فضل محمود، نذر محمد، وقار حسن، عبدالحفیظ کاردار، امتیاز احمد اور محمود حسین سخت جاں حریف کے طور پر سامنے آئے۔ پاکستان نے ابتدا امرتسر نارتھ زون کے خلاف حنیف محمد کی دونوں اننگز کی سنچریوں کے ساتھ کی۔
16 اکتوبر 1952 پاکستان کرکٹ کی یادگار تاریخ ہے۔ اس روز دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں پاکستان کے ٹیسٹ سفر کا آغاز ہوا۔ خان محمد نے پنکج رائے کو آؤٹ کر کے پاکستان کی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی۔ نذر محمد پاکستان کی جانب سے پہلی گیند کھیلے، پہلا رن بنایا اور پہلا کیچ لینے والے کرکٹر بنے۔ حنیف محمد نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی نصف سنچری بنائی۔ وہ 17 سال اور 300 دن کی عمر میں اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کے سب سے کم عمر کرکٹر تھے۔ تاہم چند انفرادی اعزازات کے باوجود پاکستان کو اپنے پہلے ٹیسٹ میں اننگز اور 70 رنز سے شکست سے دوچار ہونا پڑا، جس کا بڑا سبب بھارت کا لیفٹ آرم اسپنر ونومنکڈ کی تباہ کن بولنگ تھی، جس نے لالہ امرناتھ کی بھارتی ٹیم کو سرخرو کردیا۔ جس نے پہلی اننگز میں 52 رنز کے عوض 8 وکٹیں لیں اور دوسری اننگز میں 79 رنز کے عوض 5 وکٹیں لیں۔ ٹھیک تین روز بعد پاکستان کی ٹیم نے لکھنؤ میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں حساب برابر کر دیا اور میچ ایک اننگ اور 43 رنز سے جیت کر دنیائے کرکٹ کو حیرت میں ڈال دیا۔ لکھنؤ کی یونیورسٹی گراؤنڈ میں پاکستان کی اس یادگار جیت کے مرکزی کردار فضل محمود اور نذر محمد تھے۔ نذر محمد نے بیٹنگ میں اپنی ثابت قدمی سے جیت کی بنیاد رکھی تو فضل محمود نے اپنی خطرناک سوئنگ بولنگ سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ نذر محمد نے پاکستان کی پہلی ٹیسٹ سنچری اسکور کی جو اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ وہ اننگز کے آغاز سے اختتام تک ناٹ آؤٹ رہے۔ ایک اور اعزاز نذر محمد نے یہ بھی حاصل کیا کہ وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کر کے ٹیسٹ میچ کے تمام دن میدان میں موجود رہنے والے دنیا کے پہلے کرکٹر بن گئے۔ بھارتی بلے بازوں کو پہلی مرتبہ فضل محمود کے غیض وغضب کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے یونیورسٹی گراؤنڈ پر بچھی میٹنگ وکٹ پر اپنی سوئنگ بولنگ کا ایسا جادو جگایا کہ پہلی اننگز میں 52 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں اور دوسری اننگز میں 42 رنز کے عوض 7 وکٹوں کی شاندار کارکردگی سے پاکستان کی جیت پر مہرتصدیق ثبت کردی۔
بھارتی تماشائی اس شکست پر اس قدر دلبرداشتہ تھے کہ انہوں نے نعرہ بازی کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ تیسرے ٹیسٹ میں جو ممبئی میں کھیلا گیا، ایک بار پھر ونومنکڈ اور سبھاش گپتے کی باؤلنگ کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ وقار حسن اور حنیف محمد کے علاوہ کوئی بھی بیٹسمین انہیں اعتماد سے نہ کھیل سکا۔ حنیف محمد صرف چار رنز کی کمی سے سنچری مکمل نہ کر سکے اور وقارحسن نے پہلی اننگز میں 81 اور دوسری اننگز میں 65 رنز کی خوبصورت بیٹنگ سے قابل اعتماد بیٹسمین ہونے کا بھرپور ثبوت دیا۔ پاکستانی بولنگ وجے ہزارے اور پولی امریگر کی سنچریوں تلے دب کر رہ گئی۔ بھارت نے 10 وکٹوں کی جیت سے سیریز میں دو ایک کی برتری حاصل کر لی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی، کیونکہ مدراس اور کلکتہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ برابری پر ختم ہوگئے تھے۔ سیریز ہارنے کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے بہت عمدہ پرفارمنس دی جس نے مستقبل کے لئے پاکستان کی امیدوں اور حوصلوں کو بڑھا دیا۔
اس سیریز میں وقار حسن نے 3 نصف سنچریوں کی مدد سے سب سے زیادہ یعنی 357 رنز بنائے۔ بولنگ میں فضل محمود صرف 60ء25 کی اوسط سے 20 وکٹیں حاصل کر کے نمایاں رہے۔ دورے کے تمام فرسٹ کلاس میچوں میں حنیف محمد نے 4 سنچریوں اور 3 نصف سنچریوں کی مدد سے 917 رنز بنا کر یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ کوتاہ قامت لیکن قد آور کھلاڑی ہیں۔ فضل محمود نے 25 اور محمود حسین نے 26 وکٹوں کے ساتھ اپنی دھاک بٹھائی۔ حنیف محمد کو اسی دورے میں وکٹ پر انہماک اور ثابت قدمی سے متاثر ہو کر مشہور کرکٹ کمنٹیٹرز ڈاکٹر وجے آنند ( مہاراج کمار آف وزیانگرم ) اور طالع یار خان نے "لٹل ماسٹر” کے خطاب سے پکارا جو ان کی زندگی کا حصہ بن گیا۔