اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ہر مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کھڑے نظر آتے ہیں۔ آج 18 ذوالحج ہے اور یہ خلیفہ سوم، حضرت عثمان بن عفان ؓ کا یوم شہادت ہے۔ آپؓ کا لقب ذوالنورین تھا۔ آپ کی فروغ دین اسلام کے لیے بے پناہ خدمات ہیں، جنہیں کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ نبی کی دو بیٹیاں آپکے نکاح میں رہیں اور آپ دو نوروں والے کہلائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری صاحبزادی اور حضرت عثمان غنی ؓ کی اہلیہ حضرت رقیہ ؓ کا وصال ہوگیا تو حضرت عثمانؓ ان کی جدائی میں بہت غمگین رہا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓکا عقد آپؓ کے ساتھ کردیا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی۔ آپؓ نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علیؓ اور حضرت زیدبن حارثہ ؓکے بعد مردوں میں اسلام قبول کیا۔ آپؓ کو سخاوت اور شرم وحیا کے اعتبار سے اعلیٰ مقام عطا ہوا۔ آپؓ حد درجہ شرم و حیا کرنے والے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرمؐ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو کھولے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان حضرات سے اسی حالت میں گفتگو فرمائی، پھر حضرت عثمانؓ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنا کپڑا ٹھیک کرلیا۔ جب سب حضرات چلے گئے تو میں (حضرت عائشہ صدیقہؓ) نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے اس امتیاز کی وجہ دریافت کی تو حضور اکرمؐ نے فرمایا، کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں، جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت کی گواہی آپ کے دشمن بھی دیا کرتے تھے۔ہجرت کے بعد مسلمانوں کے لیے پینے کے پانی کی سخت تکلیف تھی۔ آپؓ نے ایک یہودی سے منہ مانگی قیمت ادا کرکے صاف شفاف پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ یہ وہی موقع تھا جب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو آپ کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت سنائی اور آپ عشرہ مبشرہ میں شامل ہوگئے ۔
مدینہ طیبہ میں غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمان تنگ دستی میں مبتلا تھے، اس وقت بھی عظیم صحابی حضرت عثمان غنی ؓ نے 3 سو اونٹ مع ساز و سامان کے پیش کیے۔ اسی غزوہ کے موقع پر آپؓ نے ایک ہزار نقد دینار پیش کیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر تین دفعہ دعا کی اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی راضی ہوجا۔ آپؓ نے پوری امت کو ایک قرأتِ قرآن پر جمع کیا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں شروع ہونے والے فتوحات کے سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آپؓ کے دور میں طرابلس، شام، افریقا، جزیرہ قبرص، جزیرہ روڈس، قسطنطنیہ، آرمینیا، خراسان، طبرستان اور کئی ایک مزید علاقے فتح ہوئے۔
آپؓ نے اپنے علاقوں کی ترقی کی خاطر بھی خوب کام کیے، مدینہ پاک میں نہری نظام کو مضبوط کیا۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے آبی ذخائر تعمیر کیے۔ کنویں کھدوائے۔
حضرت عمرؓ نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد اور اپنی شہادت سے پہلے خلیفہ کے انتخاب کے لیے 6 رکنی کمیٹی بنائی تھی۔ ان میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمان بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد تین دنوں میں گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کوخلیفہ سوم منتخب کیا گیا۔
خلیفہ سوم کو 18 ذوالحج 35ھ کو ایک عظیم سازش کے بعد شہید کردیا گیا۔ یہ عظیم سازش جو عبداللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمان کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے۔ یہ وہ بات تھی جس کی خبر حضرت عثمان نے ان الفاظ میں دی تھی کہ بخدا اگر تم نے مجھے قتل کردیا تو پھر تاقیامت نہ ایک ساتھ نماز پڑھو گے نہ ایک ساتھ جہاد کرو گے۔ جس وقت آپ کو شہید کیا گیا تب آپ قرآن کی تلاوت کررہے تھے، کئی دن کے روزے سے تھے اور اپنے گھر میں محصور تھے۔ کئی صحابہ نے سازشیوں کے خلاف آپ سے جنگ کی اجازت چاہی لیکن نبی کا یہ پیارا صحابی کسی کا جانی نقصان نہیں چاہتا تھا ۔شہادت کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے، لیکن اس کے باوجود بلوائی آپ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہوگئے۔ آپ کو تلوار کے کئی وار کرکے شہید کیا گیا۔