آج ہم ایسے شخص کے بارے میں بات کرنے جا رہے، جن کے مُتعلق پیغمبرِ خُدا (صل اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایا کہ پچھلی اُمّتوں میں مُحَدَّث (جن پر الہام ہوتا ہے) ہؤا کرت تھے اگر میری اُمّت میں کوئی ہوتا تو عُمر ہوتا، ایک اور جگہ فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عُمر ہوتا، جن کی زبان پر اللہ کریم نے حق کو جاری کر دیا ہے، مولا علی نے فرمایا کہ تَسکین اور راحت بخشنے والا کلام یقیناً عُمر کی زبان پر جاری ہوتا ہے، جس کو راستے پر چلتا دیکھ کر شیطان وہاں سے بھاگ جاتا تھا، جس نے اسلام میں فتوحات کا ایسا سِلسِلہ شروع کیا کہ اسلام کو تین بَرِّعاظموں تک پہنچا دیا.
عُمر ابن خطاب مسلمان ہونے سے پہلے اسلام کے شدید مخالفین میں سے تھے اور مُشرکین اِن کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ اپنے قبیلہ بنو عَدی کے نمائندے بھی تھے، لیکن عُمر ہمیشہ میانہ روی کے ساتھ کوئی بیان دیتے تھے، تاکہ کوئی اِنتشار یا فتنہ نہ پھیلے.
بنو عَدی میں جب بھی کوئی مسلمان ہوتا تو عُمر اُسے سخت سزا دیتے، لیکن رسولِ خُدا (علیہ السلام) کی دُعا کے بعد جب عُمر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو خود کو اپنے قبیلہ والوں کے سامنے احتساب کے لیے پیش کیا، جن پر حضرت عُمر نے سختی کی تھی.
حضرت عُمر ایک سخت مزاج آدمی تھے اور لوگ اِس وجہ سے اُن سے ڈرتے بھی تھے لیکن نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ عُمر کی سختی دین کے مُعاملے میں ہے. بظاہر تو عُمر سخت تھے لیکن اندر سے اُتنے ہی نرم دِل تھے، بہت جلدی جذباتی ہوجاتے تھے.
عُمر ہمیشہ نبی (علیہ السلام) کے ساتھ اور قریب رہنے والے لوگوں میں سے تھے، اور نبی (علیہ السلام) اُن کو ہمیشہ اپنے مشوروں میں شامل کیا کرتے تھے، اور اللہ رَبُِ العزّت نے بھی حضرت عُمر کی مُوافقت میں قُرآن پاک کی آیات نازل کیں، جیسا کہ بَدر کے قیدیوں پر، مسلمان عورتوں کے حجاب پر، مقَامِ ابراہیم کو مُصَلّہ بنانے پر اور سورۃ التحریم شَہد والے واقعہ پر.
نبی (علیہ السلام) نے حضرت عُمر کے مُتعلق کئی بار جنّتی ہونے کی بشارتیں دیں، اور اُن کی شہادت کی بھی اطلاع دی، ایک مرتبہ نبی (علیہ السلام) نے خواب میں حضرت عُمر کو ایک چادر میں دیکھا جو لمبائی کی وجہ سے زمین پر گھسٹھ رہی تھی جس پر آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اِس (چادر) سے مُراد (عُمر کا) دین ہے، اور ایک اور خواب میں نبی پاک (علیہ السلام) نے جنّت میں حضرت عُمر کا مَحَل دیکھا.
جن کی بیٹی نبی (علیہ السلام) کے نکاح میں رہیں، اور نبی کریم (علیہ السلام) سے مزید قُربت کے لیے اُنھوں نے مولا علی کی بیٹی اُمِّ کلثوم بنتِ علی سے بھی نکاح کیا، اِس طرح وہ نبی (علیہ السلام) کے صحابی، سُسَر، حضرت علی اور فاطمہ کے داماد اور مسلمانوں کے ایک ایسے عظیم لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل کیا کہ غیر مسلموں نے بھی اُنھیں انسانی تاریخ کے چند بڑے حکمرانوں کی فہرست میں شامل کیا.
حضرت عُمر نبی (علیہ السلام) سے بے پناہ مُحبت کرتے تھے اور آپ (علیہ السلام) بھی اُن سے مُحبّت کرتے تھے اور اپنی وفات تک عُمر سے راضی رہے.
نبی (علیہ السلام) کی وفات کے بعد عُمر نے نبی (علیہ السلام) کے قریبی ساتھی اور خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر کا بھی بھر پور ساتھ دیا حتیٰ کہ وہ بھی دنیا سے رُخصت ہو گئے، اور پھر اللہ کے حُکم اور مُسلمانوں کی رَضا مَندی سے خلافت کی ذمّہ داری بھر پور طریقے سے سنبھالی.
حضرت عُمر نے دُنیا کو کئی نظام متعارف کرائے، جن میں پولیس چوکی کا نظام اور بیت المال کا نظام شامل ہیں، اور حضرت عُمر کی سیاسی حِکمت عَملی کامیاب ترین اور قابل تعریف ہے.
حضرت عُمر کی عاجزی کا عَالَم یہ تھا کہ جب بازنطین سفیر اُن سے مِلنے آیا تو اُس نے عُمر (رض) کو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتے دیکھا تو کہا کہ جس انسان نے دنیا کی عظیم سلطنتوں کو شکست دے دی اور جس کے نام سے پوری دُنیا میں ہَل چَل مچی ہوئی ہے وہ اِتنی سادہ زنگی گزارتا ہے؟ اور پھر اُس نے اپنے تاریخی الفاظ کہے؛ کہ یقیناً بہت سے بادشاہ اور حکمران ایسے ہیں جو فتوحات تو کرتے ہیں لیکن پَل بھر کے لیے اُنھیں سکون نصیب نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ ڈَر میں رہتے ہیں کہ اُن پر کبھی بھی حملہ ہو سکتا ہے! کیونکہ وہ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف نہیں کرتے! جبکہ عُمر تمہارا حال یہ ہے کہ تُم نے حکومت کی، عَدل کیا، اَمن لائے اور پھر سکون سے سو گئے.
یہاں دورہ یروشلم بھی قابل ذکر ہے، جب حضرت عُمر عیسائی پادری کی گزارش پر یروشلم کی چابیاں لینے گئے، لیکن اپنی عاجزی کی بنیاد پر راستے میں اپنے خادم کے ساتھ راہِ سفر کی مشکلات کو تقسیم کیا اور کبھی خود اونٹ پر سوار ہوتے اور کبھی خادم، اور جب یروشلم پہنچے تو وہاں کے رہائشیوں نے اونٹ پر خادم کو دیکھ کر اُسے خلیفۃالمسلمین سمجھ لیا.
ذی الحج ٢٣ھجری کو حضرت مغیرہ بن شُعبہ کے فارسی غلام ابو لؤلؤ فیروز (مَجُوسی) نے ایک منصوبے کے تحت امیرالمؤمنین عُمر ابن الخطاب خلیفہ راشد، خلیفہ دوم کو فجر کی نماز کے دوران زہر میں بُجھے خنجر سے متعدد وار سے زخمی کر دیا، جس کی تعاب نا لاتے ہوئے وہ چَھبیس ذی الحج کو دُنیائے فانی سے رُخصت ہوئے.
سیدنا عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) کو ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو ان کو اٹھائے جانے سے قبل لوگوں نے ان کی چارپائی کو گھیر لیا اور ان کے حق میں دعائیں اور رحمت کی التجائیں کرنے لگے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک آدمی نے پیچھے سے میرے کندھوں کو پکڑا، اُس شخص نے سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) کے حق میں دعائے رحمت کی اور کہا: آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا کہ جس کے بارے میں میں یہ تمنا کرسکوں کہ جب اللہ تعالیٰ سے ملوں تو میرے اعمال اس کے اعمال جیسے ہوں، اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ضرور ملائے گا، اس لیے کہ میں کثرت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ ’‘میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابو بکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابو بکر اور عمر باہر گئے۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ آپ کو ان کے ساتھ ضرور ملائے گا، ابن عبّاس کہتے ہیں کہ جب میں اُس شخص کی طرف متوجہ ہوا تو کیا دیکھا کہ وہ سیدنا علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) تھے۔
اور پھر حضرت عُمر اپنے دونوں ساتھی مُحمّد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اور حضرت ابو بکر کے ساتھ حُجرہ عائشہ اور ریاض الجنّہ میں دفن ہونے کا شرف حاصل کیا.
بہت سے صحابہ نے حضرت عُمر کے بارے میں مشہور اقوال پیش کیے؛ جن میں علی، ابن مسعود، حذیفہ، سعد، ابو عبیدہ شامل ہیں، کہ یقیناً عُمر کے بعد معاملات خراب
ہوجائینگے، اور وہ اِس لئے کیونکہ عُمر دین کے معاملے پر کسی کی پرواہ نہیں کرتے، پھر چاہے سامنے کوئی بھی ہو، اور نبی (علیہ السلام) نے بھی فرمایا تھا کہ، (مفہوم) میری اُمّت اور فتنوں کے درمیان ایک دروازہ ہے جب اُسے توڑ دیا جائے گا تو فتنے پورے زور کے ساتھ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑینگے اور وہ دروازہ عُمر ابن الخطاب ہیں.
اب آخر میں، میں یہاں پر ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں کچھ دہائیوں سے یہ روایت چل پڑی ہے کہ یَکُم مُحرّم حضرت عُمر کا یومِ شہادت ہے، جبکہ صحیح ترین روایات سے ثابت ہے کہ ٢٦ ذی الحج کو عُمر (رض) شہید ہوئے.