کئی برسوں پر محیط تعلق اور متعدد انٹرویوز کی وجہ سے میں اس واقعے کے رونما ہونے کا منتظر تھا۔ کورونا سے لڑتے ہوئے، سماجی فاصلے کے اس نئے عہد میں یہ ایک بڑی خوش خبری تھی۔
پختہ، گتھا ہوا اسلوب، جملے کی ساخت میں نیا پن، غیر ملکی لوکیل پر حیران کن گرفت، اور انسانیت کا پرچار۔ یہ ڈاکٹر حسن منظر کے کمالات ہیں، بے شک وہ اردو فکشن کا فخر ہیں۔
ان کے ادب میں جو تنوع نظر آتا ہے، وہ نایاب نہ بھی ہو، کم یاب ضرور ہے۔ ایک جانب سندھ دھرتی کی دل موہ لینے والی کہانیاں بنیں، وہیں خطہ عرب اور افریقہ کے اجنبی ماجروں کو، ان کے المیوں اور حقیقی کرداروں کے ساتھ منظر کیا۔
آج اس باکمال فکشن نگار کا ذکر یوں نکل آگیا کہ گزشتہ دنوں انھوں نے پریم چند سے ہماری ملاقات کا اہتمام کیا۔
قصہ کچھ یوں کہ گزشتہ دنوں انجمن ترقی اردو میں ان کی دو کتب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ یہ دونوں کتب کہانیوں کی تو نہیں، البتہ ایک عظیم کہانی کار سے متعلق ضرور ہے۔ اور یہ کہانی کار ہے، پریم چند۔
تقریب کے مہمان خصوصی، ضیا محی الدین نے اس بات کا خصوصی طور پر ذکر کیا کہ آج جب اس خطے مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے، انجمن ترقی اردو کی جانب پریم چند کی کتب کی اشاعت ایک قابل تعریف اقدام ہے۔
پریم چند کی ایک پراثر کہانی بوڑھی کاکی بھی ضیا صاحب نے پڑھی، جس نے محفل کا لطف دوبالا کر دیا۔ سمجھیں، حقیقی معنوں میں تقریب کو چار چاند لگ گئے۔
اچھا، آگے بڑھنے سے پہلے ان کتابوں کا تذکرہ ہوجائے، جن کی وجہ سے یہ تقریب سجی۔ پہلی تھی: منگل سوتر، پریم چند کا آخری اور نامکمل ناول، جسے ڈاکٹر حسن منظر نے ہندی سے اردو روپ دیا ہے۔ دوسری کتاب تھی: پریم چند گھر میں۔ یہ ان کی بیگم شورانی دیوانی کی تحریر ہے، اس کا ترجمہ بھی حسن منظر کی کاوش ہے۔
اپنی تقریر میں ڈاکٹر حسن منظر نے پریم چند سے اپنی الفت اور ان دونوں کتابوں کی تشکیل کی کہانی بیان کی۔
محترمہ زاہدہ حنا نے اپنی خطاب میں جہاں پریم چند کے فکشن کی اہمیت پر روشنی ڈالی، وہیں حسن منظر کے قلم کی گرفت اور پختگی کا حوالہ دیتے ہوئے سندھ سماج کی منظر کشی میں ان کی مہارت کا بالخصوص تذکرہ کیا۔
کورونا کے باعث حسن منظر سے ملاقات میں تعطل آگیا تھا۔ اس روز سامنا ہوا، مگر اس بھری پری محفل میں گفتگو کا امکان کم تھی، تو صاحب، اس تحریر کو یہیں سمیٹے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ یہ قدآور ادیب اپنی طلسماتی قلم سے یونہی کہانی بیان کرتا رہے۔