کراچی: چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ آدھا کراچی قبضہ ہوا ہے اور پورا حیدر آباد انکروچڈ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سرکاری زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے کیس کی سماعت کی۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے قبضے ختم کرانے سے متعلق اطمینان بخش رپورٹ پیش کی تو عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے سرکاری زمینیں واگزار کرانے سے متعلق اطمینان بخش جواب نہ دینے پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی سرزنش کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آدھے سے زیادہ سندھ کی سرکاری زمینوں پر قبضہ ہے آپ کو نظر نہیں آتا؟کمیٹی کی کہانیاں ہمیں مت سناؤ، قبضہ ختم کراؤ جا کر، اینٹی انکروچمنٹ عدالتیں بھی کچھ نہیں کر رہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا حیدر آباد انکروچڈ ہے، آدھا کراچی قبضہ ہوا ہے، ملیر چلے جائیں ، گلستان جوہر ، یونیورسٹی روڈ سب دیکھ لیں ، یہ جو 15 اور بیس بیس منزلہ عمارتیں بن گئیں کیا قانونی ہیں ؟ سب غیر قانونی ہے ، سب ریونیو کی ملی بھگت سے بنی ہیں اور جعلی کاغذات پر بنائی گئی ہیں، یہ لوگ قبضہ کراتے ہیں بھتہ لیتے ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ؟ ان کا تحفظ کررہے ہیں ؟ آپ شکایت کیوں نہیں بھیجتے ؟ کیا مفادات ہیں آپ کے ؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پورے کراچی پر قبضہ ہے اور صرف نو کیسز رپورٹ ہیں۔
سینئر ممبر نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ، کورنگی میں قبضے کے خلاف کارروائی بھی شروع کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو آپ کہیں گے سپریم کورٹ کا حکم ہے لہذا زیادہ ریٹ ہوں گے، اب تو وہاں ریٹ بڑھ گئے ہوں گے آپ کے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کے گرد و نواح میں جائیں دیکھیں سب غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں،جائیں جو نام نہاد موٹر وے بنایا ہے وہاں سب قبضہ ہے ، ایئرپورٹ کے ساتھ بھی یہ زمینیں نظر نہیں آتیں ، غیرقانونی ہے؟ آپ حکم پر عمل درآمد کریں ورنہ توہین عدالت کا کیس چلے گا اور جیل جائیں گے ، آپ کا کام عملی نظر آنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرنے سے متعلق سینئر ممبر کی رپورٹ مسترد کردی۔ عدالت نے سندھ بھر میں سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرانے اور سینئر ممبر کو ایک ماہ میں جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔