محمد راحیل وارثی
آج قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کی برسی ہے۔ 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ ملک عزیز کے معروف ترین شعرا میں سے ایک تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کی ملک و قوم کے لیے خدمات کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں۔ آپ 13 جنوری1900 کو جالندھر پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے اور نام محمد عبدالحفیظ رکھا گیا۔ آپ کے والد شمس الدین حافظِ قرآن تھے۔
قیام پاکستان کے بعد آپ جالندھر سے لاہور آگئے۔ آپ کو ادب سے گہرا شغف تھا۔ آپ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ 1922 سے 1929 تک آپ کچھ مختلف رسالوں کے مدیر رہے۔ آپ کی نظموں کا پہلا مجموعہ ”نغمہئ زر“ 1935 میں شائع ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آپ ”سونگ پبلسٹی ڈپارٹمنٹ“ میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ نے ناصرف تحریک آزادیئ پاکستان میں حصّہ لیا، بلکہ اپنی شاعری سے مسلمانانِ ہند کا خون بھرپور طریقے سے گرمایا۔
1948 میں آپ کشمیر کی آزادی کی افواج میں شامل ہوئے۔ آپ نے کشمیر کے لیے ترانہ بھی لکھا ”وطن ہمارا آزاد کشمیر۔“ پاک بھارت 1965 کی جنگ کے دوران آپ نے کچھ ملی نغمے بھی لکھے۔ پاکستان کی مسلح افواج میں آپ نے ڈائریکٹر جنرل Morals کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ صدر ایوب خان کے مشیر ہونے کے ساتھ رائٹرز گلڈ آف پاکستان کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
23 فروری 1949 کو حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی۔723 افراد قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں شامل تھے، ان میں سے حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو پاکستان کا قومی ترانہ منتخب کیا گیا۔ آپ کی شاعری کا محور رومانویت، مذہب، حب الوطنی اور قدرت رہے ہیں۔ آپ کی معروف کتابوں میں شاہ نامہئ اسلام، سوز و ساز، تلخابہ شیریں اور چراغ سحر شامل ہیں۔