لاہور: گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے اعتماد کے ووٹ کی تصدیق کردی، دی نوٹیفائی کا حکم واپس لے لیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل نے اعتماد کے ووٹ کی کاپی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اعتماد کا ووٹ لے کر سیاسی بحران ختم کردیا ہے، وزیراعلیٰ کو 186 ارکان نے اعتماد کا ووٹ دیا۔
انہوں نے کہا کہ گورنر کا دوسرا نوٹیفکیشن وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا تھا جسے کالعدم ہونا چاہیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر گورنرپنجاب کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوا تو اعتماد کا ووٹ بھی کالعدم ہوجائے گا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر کل دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہہ دیں تو پھر کیا ہوگا؟، اب بھی اگر گورنر کوئی نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں تو صورت حال کیا ہوگی۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے وکیل نے پرویز الہٰی کے اعتماد کے ووٹ پراعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ رات اعتماد کے ووٹ میں قواعد و ضوابط پورے نہیں کیے گئے۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ گورنر کا پہلا حکم تھا اعتماد کا ووٹ لیں وہ پورا کرلیا ہے، گورنر کا دوسرا نوٹیفکیشن وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا تھا جسے کالعدم ہونا چاہیے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست نہیں تھا، اور پھر آپ اسمبلی میں جو کرنا چاہیں وہ کریں، آپ کے مطابق آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے، اگر گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا تو پھر تو آپ کے ووٹ لینے کا معاملہ کالعدم ہوجائے گا، آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کےلیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے، اگر دونوں فریقین اس پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم جاری کردیتے ہیں کہ گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا، اگر دونوں فریقین رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم بھی جاری کردیتے ہیں کہ گورنر نے جو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا وہ ٹیسٹ ہوگیا ہے۔
گورنر کے وکیل نے کہا کہ اس میں کسی اتفاق رائے کی ضرورت نہیں، عدالت آرڈر کرسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے ووٹوں کے ریکارڈ کو عدالت کی کارروائی کا حصہ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ووٹوں کے ریکارڈ کو عدالت دلائل کا حصہ بنادیا جائے، گورنر کو اس پر اعتراض نہ ہوگا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر دوبارہ گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے تو اس کے کیا نتاٸج نکلیں گے، اگر گورنر دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہے تو کس طرح طے کیا جاٸے گا کہ گورنر کی وجوہ قابل اطمینان ہیں، کیا اسمبلی کے ہر سیشن پر گورنر کا اعتماد ہونا ضروری ہے، اعتماد کے ووٹ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کیا گورنر اگلے ہفتے پھر یہی عمل دہرا سکتا ہے، آج کیس کا فیصلہ ہوتا ہے کل کو گورنر پھر اس طرح کا حکم جاری کردیتا ہے تو کیا صورت حال ہوگی۔
گورنر پنجاب کے وکیل نے جواب دیا کہ معاملہ اسمبلی فلور پر ہی جائے گا۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں نے گورنر کے سردار عارف نکئی کو ہٹانے کا آرڈر کالعدم قرار دے دیا، ہم گورنر کے آرڈر پر اپنی رائے نہیں دے سکتے، صرف جوڈیشل فیصلہ دے سکتے ہیں۔
جسٹس عابد عزیز نے پوچھا کہ مستقبل میں گورنر کے ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے عدم اعتماد کے لیے کتنے دن ہونا چاہئیں۔
علی ظفر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ کم از کم 14 روز ہونے چاہئیں، گورنر پابند ہیں کہ کم سے کم سات دن کا نوٹس دیں، گورنر اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے اسپیکر اسمبلی کو کہہ سکتا ہے لیکن تاریخ اور وقت کا تعین اسپیکر کرتا ہے۔
جسٹس عابد عزیز نے کہا کہ یہاں گورنر نے پرویز الٰہی کو صرف دو روز دیے۔
علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گورنر کا وقت اور تاریخ کا تعین کرنا غیر قانونی ہوگا، گورنر اس طرح غیر قانونی طریقے سے وزیراعلیٰ کو ہٹا نہیں سکتے تھے۔
گورنر پنجاب کے وکیل نے مشاورت کے لیے مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ مجھے ہدایات کے لیے پانچ منٹ دیے جائیں۔ عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو گورنر کے وکیل منصور عثمان نے کہا کہ گورنر سے رابطہ ہوگیا ہے، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کی تصدیق کردی ہے اور وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی کرنے کا حکم واپس لے لیا ہے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آپ نے اپنی اسمبلی کے اندر یہ معاملہ حل کرلیا ہے جو اچھی چیز ہے سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہوگیا ہے ہم تو چاہتے ہیں ایسے معاملات میں عدالت کی مداخلت کم سے کم ہونی چاہیے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ نے 12 جنوری کو اعتماد کا ووٹ حاصل کیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے آئین کے آرٹیکل 137 کے سب سیشن 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کیا، اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا ہے۔ عدالت نے پرویز الٰہی کی درخواست نمٹادی۔