قتل کسی انسان کا بھی ہو ایک ظلم عظیم ہے اور ایک سیاسی و مذہبی لیڈر کا قتل اور بھی قابل مذمت، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ گاندھی کی موت کے دن ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ گاندھی نے پاکستان کے لیے جان دی۔ ہاں اس نے پاکستان کے حصے کی رقم نہ دیے جانے پر احتجاج کیا تھا اور مرن برت بھی رکھا تھا مگر یاد رہے اس مرن برت کے پیچھے وجوہ اور بھی تھیں۔
ذرا مولانا آزاد کو ہی پڑھ لیا جائے جنہوں نے لکھا ہے کہ آزادی کے بعد گاندھی جی اپنے چیلے سردار پٹیل کی رویے سے نالاں تھے اور ان کا مرن برت پٹیل کے رویے کے خلاف بطور احتجاج تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ برصغیر کی تاریخ میں گاندھی جی کے سیاسی اسٹیج پر نمودار ہونے کے بعد سے لے کر آزادی کے دن تک جب جب بھی ہندو مسلم تصفیے کا موقع پیدا ہوا تو اس کی راہ کا سب سے بھاری پتھر گاندھی جی کی ذات ہی رہی ہے۔ 1916ء کے کانگریس لیگ لکھنو پیکٹ کے وقت گاندھی کی ہندوستانی سیاست میں کوئی اینٹری اور اہمیت پیدا نہ ہوئی، اس لیے قائداعظم کی کوششوں سے ایک تصفیہ ہوگیا، مگر بعد میں جوں جوں گاندھی کی سیاسی و مذہبی حیثیت بڑھتی گئی، ہندو مسلم معاملات بہتری کی بجائے ابتر ہوتے گئے۔
تحریک خلافت میں ان کا ساتھ ان کے اپنے بقول اپنی گائے ماتا کو مسلمانوں کی چھریوں سے محفوظ کرنا تھا۔ اس کے بعد ہر ایسے موقع پر، جب ہندومسلم مناقشات یا مسلم مطالبات کو ماننے کا موقع ہی یہ گاندھی کی ذات تھی تو سدِراہ بنی۔ 1929ء کی نہرو رپورٹ کے بعد سے تین گول میز کانفرنسز ہوں یا 1937ء کے انتخابات میں کانگریس کی کامیابی، گاندھی جناح مذاکرات کے کئی ادوار ہوں، یا سبھاش بھوس کی صدارت کا عرصہ، شملہ کانفرنس ہو یا کابینہ مشن پلان، ہر بار یہی حضرت تھے، جنہوں مسلمانوں کے جائز مطالبات کانگریس سے نامنظور کرائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ گوڈسے اور اس کی جماعت کے متعلقین گاندھی سے اس لیے خفا نہیں تھے کہ انہوں نے پاکستان کو ملنے والے اثاثوں کے لیے مرن برت کیوں رکھا، بلکہ وہ تو گاندھی سے اس لیے ناراض تھے کہ ان کے اپنے اور اس گاندھی نے، جس نے کہا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم میری لاش پر ہوگی، پاکستان کا بننا کیوں منظور کر لیا۔ ان لوگوں کے نزدیک گاندھی کا اصل جرم یہی تھا اور وہ پاکستان کے حق میں مرن برت نہ بھی رکھتے تو پھر بھی ان کے ساتھ ہونا یہی تھا۔ جس مذہبی جنونیت کی آبیاری انہوں نے کی تھی اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا۔