اپنی باری کا انتظار کرتی حامزہ جب ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے اٹھی تو ماسک کو ہلکا سا ہٹا کر لمبا سانس کھینچ کے لیتے ہوئے دھیمے قدموں سے کمرے میں چلی گئی، کمرے سے باہر آئی تو۔۔۔
میں: کس علاقے سے آئی ہو؟
حامزہ: صدر۔
میں: سانس کیوں اس طرح لے رہی ہو؟
حامزہ: شاید ماسک پہننے کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہورہی ہے۔
میں: کیسا محسوس ہوتا ہے؟
حامزہ: آکسیجن کی کمی محسوس ہوتی ہے مگرماسک پہننا بھی ضروری ہے کیوں کہ دوران حمل زیادہ احتیاط بتائی ہے۔
حامزہ جیسی زیادہ ترخواتین کو معلوم ہی نہیں کہ ان کو کورونا کا ہی خطرہ نہیں بلکہ خراب ہوتی ہوئی ایئر کوالٹی بھی ان کے اور بچے کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔
گائناکالوجسٹ، او- ایم- آئی اظہرہ احسن نے کاربن کے حوالے سے بتایا کہ ہٹر سے نکلنے والی کاربن مونو آکسائیڈ سے تو کمرے میں موجود لوگوں کی اموات ہوجاتی ہیں مگر ایسا بہت ہائی کانسنٹریشن پہ ہوتا ہے اور جو ہم عام ہوا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں، اس میں کاربن مونو آکسائیڈ کا یہ لیول نہیں ہوتا کہ جن سے فوری جان چلی جائے، ظاہر ہے صحت پہ اثرات ہوتے ہیں اور یہ منحصر ہوتا ہے کہ ہم کتنے عرصے سے ان زہریلی گیسوں کا سامنا کررہے ہیں تو جو اثرات ہوتے ہیں وہ فوری ظاہر نہیں ہوتے، آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ سے پھیپھڑے خراب ہوتے ہیں، سانس لینے میں مشکل، دمہ جیسے مسائل ہوتے ہیں اور پھر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دوسرے آرگنز خراب ہوجاتے ہیں۔
٪25 سے ٪30 حمل ضائع تو ویسے ہی ہوتے ہیں، یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کون سا اسقاط حمل کس وجہ سے ہوا۔ لیکن ہاں! نظریاتی طور پہ اس کے اثرات ہوسکتے ہیں جیسے بچے کی وقت سے پہلے پیدائش ہوجانا، اسقاط حمل، بچے کی افزائش خراب ہونا، بچے کا پیٹ میں وزن نہیں بڑھنا جس کے باعث وقت سے پہلے پیدائش کرنی پڑتی ہے، آکسیجن کی کمی سے میٹابولک سسٹم متاثر ہونے سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا اور بچوں کی وقت سے پہلے پیدائش اور اس کی وجہ سے پھیپھڑے اور دوسرے آرگنز کا مکمل نہ ہونے جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔
حمل ایک ایساعمل ہے جس میں قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے تو کووڈ سے فائٹ کرنا مشکل ہوجاتا ہے، ماسک پہننا ضروری ہے، اگر ماسک نہیں پہنیں گے تو کووڈ ہوسکتا ہے اور ہاں ماسک پہننے سے آکسیجن کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
ماہرسموم (toxicologist) یونیورسٹی آف کراچی شعبہ ماحولیات کی پروفیسر ڈاکٹر ثریا جبین نے بتایا فضائی آلودگی کی دو ہی بڑی وجوہ ہیں فیکٹریاں اور گاڑیاں جن میں فاسل فیول کو انرجی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ چونکہ کراچی کی سمندری ہوا ہے جو آلودگی کے پارٹیکلز کو اڑا کے لے جاتی ہے مگرجن علاقوں میں ہوا کم ہے، ان میں آلودگی زیادہ ہے جیسے صدر کا علاقہ، وہاں لوگوں کو سر درد کے زیادہ مسائل دیکھنے میں آتے ہیں اور جن لوگوں کا ایسے علاقوں میں جانا ہو ان میں پھیپھڑوں اورسانس کی بیماریاں زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں، اور حاملہ خواتین کا معاملہ تو زیادہ نازک ہوجاتا ہے، تحقیقات کے مطابق جو حاملہ عورتیں ایسے ماحول میں سانس لے رہی ہوں، جہاں کاربن مونو آکسائیڈ موجود ہو تو ان خواتین میں اسقاط حمل کا خطرہ ہونے کے ساتھ بچے کی پیدائش بہت کمزور ہوتی ہے اور ان بچوں میں پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریاں زیادہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور ان بچوں میں بڑے ہونے کے ساتھ دل کی بیماریاں اور دماغی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ہماری فضا میں ڈائی آکسین موجود ہے جو سب سے زیادہ زہریلا کیمیکل ہے، کیوںکہ یہ کینسر کی وجہ ہے۔ ایئر کوالٹی بہتر بنانے کے لیے درخت لگانے کے ساتھ متبادل سورس آف انرجی کا استعمال کریں، جیسے سولر، پانی، الکوحل، الیکٹرک سے چلنے والی گاڑیاں ماس ٹرانزٹ سسٹم ہونا چاہیے اور سائیکل کا استعمال فضا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی اچھا ہے۔
ایئر کوالٹی ایشیا (AQA) کنوینر ڈاکٹر شازیہ رافعی کا کہنا ہے، پاک صاف ہوا سے متعلق اقوام متحدہ کے ایس ڈی جی (sustainable development goals )2030 کی تعمیل سے پاکستان ابھی دور ہے، ملک کے ای پی اے (environmental protection agency) ایجنسی برائے حفاظتی ماحولیات کے ضوابط پر عمل درآمد کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ ٹرانسپورٹ ایندھن کو یورو5 euroV) ) تک اپ گریڈ کی ضرورت ہے۔ ای وی (electric vehicles) پالیسی کی ضرورت ہے۔ صنعت کے اخراج کے ضوابط کو نفاذ کی ضرورت ہے۔ قابل تجدید توانائی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ماہرماحولیات (environmentalist) یونیورسٹی آف کراچی شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ماحولیات کی اگر ہم بات کریں تو سب سے زیادہ مسئلہ فضائی آلودگی کا ہے اور دوسرے نمبر پہ سولڈ ویسٹ اور ویسٹ واٹر کا ہے۔ ایک سال پہلے کے ڈیٹا کے مطابق کراچی کی فضا میں کاربن مونوآکسائیڈ کی مقدار5۔ پی پی ایم سے لے کر 1پی پی ایم تک آرہی ہے جو ایک خطرناک لیول ہے اور یہ ایک زہریلی گیس ہے، اس کے علاوہ ہوا میں دیگر گیسز اور ڈسٹ پارٹیکلز کا بھی اضافہ ہوا ہے، سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کے تحت فضائی آلودگی کا جو گراف ہے، وہ بہت اوپر آرہا ہے، کیوںکہ روزانہ سڑکوں پہ گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اسی طرح فیکٹریوں کے حوالے سے جو سندھ انوائرمنٹ کوالٹی اسٹینڈرڈ (SEQS) بنائے گئے ہیں، ان پہ عمل درآمد ضروری ہے اور کاربن کو گھٹانے کا یہی طریقہ ہے کہ جس جگہ سے یہ پروڈیوس ہورہی ہے، اسی جگہ سے کنٹرول کیا جائے۔
سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کی ٹیم لیاقت آباد 10 نمبر پہ موجود گاڑیوں کی جانچ کررہے ہیں، وہاں موجود انوائرمنٹل انسپکٹر نعیم شیخ کے مطابق وہ روزانہ کراچی کی مختلف سڑکوں پہ 30 سے 35 گاڑیاں چیک کرتے ہیں، جس میں سے ہر 4 سے 5 گاڑیوں کا چالان اسی بنیاد پہ ہوتا ہے کہ وہ ٪40 کی لمٹ پہ اسموگ چھوڑ رہی ہوتی ہیں۔ روزانہ کی اس ایکٹیویٹی میں ٪80 سے ٪85 گاڑیاں، بسیں، شہزور، ٹریلرز فیل ہوتے ہیں، جن پہ لال اسٹیکر لگا کر چالان کردیا جاتا ہے، اگر 15 دن کے دورانیہ میں وہ اپنی گاڑی کی کارکردگی کو، وہیکل ایمیشن کے پیمانے کے مطابق بہتر نہیں بناتے تو اسے ٹریفک پولیس بند کردیتی ہے۔ کراچی کے وہ علاقے جہاں ٹریفک کا فلو زیادہ ہے۔ شیرشاہ، گلبائی، ماڑی پور، صدر میں فضائی آلودگی کراچی کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔
ویب سائٹ www.researchgate.net کے محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں 3ملین سے زیادہ گاڑیاں روزانہ سڑکوں پر ہوتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کے مطابق فضائی آلودگی کے نتیجے میں ہر سال 2۔4 ملین اموات ہوتی ہیں۔ گھریلو (اندرونی آلودگی)، ایندھن (چولھے)، سگریٹ نوشی سے ہر سال 8۔3 ملین اموات ہوتی ہیں۔ دنیا کی ٪91 آبادی ان جگہوں پہ آباد ہے جہاں ہوا کا معیار(WHO) کے رہنما اصول کی حد سے تجاوز کرتا ہے۔