فہمیدہ یوسفی
پاکستان میں حالیہ دنوں میں جاری سیاسی کشمکش میں جس طرح سے سوشل میڈیا پر فوج مخالف ٹرینڈز دیکھنے میں آئے ،ایسی مثالیں ذرا کم ہی نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا باقاعدہ پاکستان کی افواج کو ٹارگٹ کیا گیا اور مسلسل کمپینز چلائی جاتی رہیں، جس کو بدقسمتی سے اندرونی حمایت بھی حاصل رہی اور اس کا فائدہ بیرونی عناصر نے بھرپور طریقے سے اٹھایا ، تاہم یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا جو ریاست پاکستان مخالف ٹرینڈ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب جنگوں کا میدانِ جنگ میڈیا ہے. میڈیا کو کسی بھی قوم کے بارے میں ایسا مواد نشر کرنے کے لیے استعمال کرنا جو اس قوم کو مختلف نظریاتی، مسلکی، لسانی، گروہی طور پر ریاست کے خلاف اتنا تقسیم کردے کہ وہ اپنے ہی ملک کےخلاف اٹھ کھڑے ہو۔ یہ جنگ اتنی خطرناک ہے کیونکہ یہ آمنے سامنے نہیں بلکہ ذہنوں سے لڑی جاتی ہے۔ اس کے ہتھیار یا پراکسیز ٹی وی، ریڈیو، پرنٹ، سوشل میڈیا ہیں، جس کا استعمال کرکے ٹارگٹ ملک کے شہریوں کو ان کی ریاست اور ملک کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے شہریوں میں ذہنی خلفشار احساس عدم تحفظ پیدا کیا جاتا ہے۔ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ نفسیات کی ایسی جنگ ہے جس میں دشمن اپنی طاقت کے تمام تر ممکنہ ذرائع استعمال کرکے حملہ آور ہوتا ہے، لیکن اپنی عسکری طاقت کا استعمال محدود رکھتا ہے۔ اس جنگ میں دشمن تجارتی، ثقافتی، نظریاتی، سفارتی میڈیا اور پروپیگنڈا کو استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جامعہ کراچی میں ہونے والے خودکُش حملے کی ذمے دار شاری بلوچ اس کی مثال ہے، جو برین واشنگ کے ذریعے اس نہج پر پہنچی، جہاں اس نے جان دے کر چند معصوموں کی جان لینے کو اپنے بیانیے کی جیت سمجھا۔ اس خطرناک جنگ کو ففتھ جنریشن وار فیئر یا ہائبرڈ وار فیئر کہا جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ ہم بیانیے کی اس جنگ پر بات کریں، ہم ذرا مختصر طور پر فرسٹ جنریشن وار فیئر سے فورتھ جنریشن وار فیئر پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ فرسٹ جنریشن وار فیئر کو دور حرب و ؑعضب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بنی نوع انسان کی جنگی تاریخ بھی انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ انسان نے سب سے پہلا ہتھیار اپنا مضبوط جسم استعمال کیا، جس کی بدولت وہ کمزور جسم کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ اپنی جسمانی طاقت کو بڑھانے کے لیے انسان نے پتھر (اینٹ، کنکر)، دھات (چھری، چاقو، تلوار اور تیر کمان) سے کام لینا شروع کیا۔ انسانی طاقت کی اس جنگ میں گھوڑے اور ہاتھی بھی شامل ہوگئے۔ اس فرسٹ جنریشن وار فیئر میں انسانی طاقت اور فوجی دستوں کی عددی برتری کو کامیابی کا اصول سمجھا جاتا تھا۔
جیسے جیسے انسانی ترقی کا سفر ہوتا رہا ویسے ویسے جنگی ماڈل بھی تبدیل ہوتے رہے۔ انسانی طاقت اور فوجی دستوں کے ساتھ کامیابی کے لیے طاقتور ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا گیا، جن میں گولا بارود، توپ، رائفل اور مشین گنز وغیرہ شامل تھے۔ عددی طاقت کے بجائے ہتھیاروں کی طاقت پر لڑنے والی ان جنگوں کو ٹیکنالوجی کی جنگ جب کہ سیکنڈ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔
امریکن پروفیسر رابرٹ جے بنکر نے اپنے تحقیقی مقالے میں تھرڈ جنریشن وار فیئر کے بارے میں لکھا کہ یہ وار فیئر جنگی آئیڈیاز یا پھر جنگی چالوں کی بنیاد پر شروع کی گئی۔ اس ماڈل میں دشمن کو اپنی مختلف حکمت عملی اور چالوں سے چابک دستی سے مات کیا جاتا ہے اور یہی وہ جنریشن ہے، جس میں ایئر کرافٹس کا استعمال بھی شروع ہوا۔ تھرڈ جنریشن وار فیئر بنیادی طور پر جہاز کی ایجاد کے بعد شروع کی گئی، جس میں جہاز کی مدد سے افواج نے ایک دوسرے کے خلاف دُوردراز تک حملے کی صلاحیت حاصل کی اور اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ دور جدید میں افواج کے پاس بہترین جنگی جہازوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے جب کہ دور جدید کی جنگوں کے لیے فورتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے۔
فورتھ جنریشن وار فیئر دور جدید کی وہ وار فیئر ہے، جس میں دشمن اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف گروپس کا استعمال کرکے ملک میں انارکی پھیلاتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے امن کو نقصان پہنچانے کے لیے مختلف کالعدم تنظیمیں دشمنوں کی آلۂ کار بن کر ملکی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ اس کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو کہاں کہاں، کس نے پناہ دے رکھی ہے، پاکستان نے سب ثبوت دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں ہائبرڈ وارفیئر کی، ’’ہائبرڈ وارفیئر‘‘ کی اصطلاح 21ویں صدی کے اوائل میں اسٹرٹیجک لغت میں داخل ہوئی، حالانکہ اس سے پہلے بھی یہ وار فیئر ایک طویل عرصے سے مختلف ارتقائی شکلوں میں رائج تھی۔ ہائبرڈوارفیئر میں اسٹرٹیجک مقاصد کے حصول کے لیے غلط معلومات پھیلانا، پروپیگنڈا، معاشی جبر، پراکسی ملیشیا کی پشت پناہی اور سائبر حملوں کا وسیع استعمال شامل ہے۔ اس کو آسان زبان میں اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اس جنگ میں دشمن اندرونی تضادات کا بھرپور استعمال کرکے انتشار پھیلاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر میں سب سے پہلے ملک میں خانہ جنگی یا پھر داخلی انتشار کی فضا قائم کی جاتی ہے، پھر اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔جدید دور میں طاقتیں اپنے بنیادی مخالفوں کو غیر مستحکم کرنے، ان کے حوصلے پست کرنے اور منتشر کرنے کے لیے ہائبرڈ جنگ میں مصروف ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت تقسیم کے بعد سے مسلسل پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار فیئر میں مصروف ہے اور اس کا نشانہ پاکستان کی افواج اور سلامتی ہے۔پاکستان کے خلاف اس ہائبرڈ وارفیئر کے لیے بھارت کی جانب سے بھرپور فنڈنگ کی جاتی ہے جب کہ پاکستان کا ایٹامک پروگرام، پاک افواج اور ملکی سلامتی اس ہائبرڈ وارفیئر کا خصوصی ٹارگٹ ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف چلنے والے ٹرینڈز میں اکثریت کے تانے بانے بھارتی سرزمین سے ہی جاکر ملتے ہیں، جس کی بدترین مثال ڈس انفو لیب سے دی جاسکتی ہے، جس کے ذریعے پاکستان کے خلاف کی جانے والی بھارتی ڈس انفارمیشن مہم کا پردہ چاک کیا گیا تھا۔ دوسری جانب بھارتی سفارتی تخریب کاری کے ذریعے مسلسل اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ میں ڈال سکے، تاہم پاکستان کے خلاف بھارت کی ہائبرڈ جنگ جنوبی ایشیا کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
جب پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وارفیئر کی بات آتی ہے تو بھارت کا بنیادی مقصد پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم رکھنا ہے، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی طاقت کو بڑھنے سے روکا جاسکے جب کہ سیاچن اور سر کریک جیسے مسائل پر بھارت کی شرائط پر تصفیہ کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ درحقیقت بھارت نے مختلف سطحوں پر پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وارفیئر کے لیے اپنا ہر ممکن ہتھیار استعمال کیا اور کررہا ہے۔بھارت بالخصوص بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں میں یہ بیانیہ پڑھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم بہت بڑی غلطی تھی جب کہ وہ یہ امیج بھی بنانے کی کوشش میں ہے کہ بھارتی مسلمان پاکستانیوں اور یہاں تک کہ بنگلا دیشیوں سے بھی برتر ہیںجب کہ اصل حالات یہ ہیں کہ وہاں مسلم اقلیت کو انتہا سے زیادہ تعصب کا سامنا ہے، چاہے وہ مسلمان بچیوں کے حجاب کا معاملہ ہو ،یا نماز کا، یا پھر نوکریوں کا، مسلمانوں کو ہرجگہ سے اس معاشرے سے علیحدہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار بھارت کی سیاست کو بھی بہت سوٹ کرتی ہے، بالخصوص انتخابات کے آس پاس یہاں تک کہ ہندوتوا کے نشے میں دھت بی جے پی بھی اسی حکمت عملی سے کام لے کر اقتدار میں آئی، جس کی مثال پلوامہ فالس فلیگ آپریشن سے دی جاسکتی ہے۔بھارت نے یہ بیانیہ بھی جنم دیا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، لیکن پاکستانی فوج تعلقات کو معمول پر نہیں آنے دیتی۔ یہ بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج ہی ہے جو تنازع کشمیر کے حل کی اجازت نہیں دے رہی، کیونکہ جب پاکستان اور بھارت صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی بنیاد پر حل نکالنے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی میں مصروف تھے تو یہ پاکستانی فوج ہی تھی، جس نے معاملے کو حل نہ ہونے دیا، پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ 2008 کا ممبئی حملہ پاکستان نے کروایا، اس کی حمایت اور فنڈنگ کی،یہ سراسر پاکستان کے خلاف جھوٹ اور منفی پروپیگنڈا ہے۔
اس منفی پروپیگنڈے میں پاک فوج کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں پاکستان کے دفاعی اخراجات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو بھارت کے جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے قطعی غیر منطقی ہیں، بھارت پاکستان کی فالٹ لائنز یعنی بلوچستان اور سی پیک کا بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو طالبان سے جوڑتا ہے۔ یقیناً بھارت کا اصل مقصد ملک کے اندر بے چینی، تقسیم اور عدم استحکام پیدا کرکے پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔اس ہائبرڈ وار فیئر کے خلاف پا کستان کو اچھی ، مربوط اور مضبوط حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر پلیٹ فارم پر بھارت کے مذموم اقدام کا مقابلہ کیا جائے۔ پاکستان کو اپنی سماجی اور سیاسی ہم آہنگی پر توجہ دیتے ہوئے اپنے خلاف جاری ہائبرڈ وار کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا، یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ خصوصاً جب ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردی اپنا سر اٹھارہی ہے اور اسی اثنا میں عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک اَن دیکھی خلیج پیدا کی جارہی ہے، جو پاکستان کی سلامتی کے لیے بالکل ٹھیک نہیں ۔ ہم ڈیجیٹل دنیا میں رہتے ہیں، جہاں معلومات تیزی سے پھیل جاتی ہیں، لہٰذا، ہمیں بھارت کے بیانیے کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ’’مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ لیکن بدقسمتی سے پاکستان ہمیشہ معذرت خواہانہ انداز میں کام کرتا ہے۔
میڈیا ممکنہ طور پر کسی بھی ریاست کا چہرہ ہو سکتا ہے، لیکن پاکستان کے معاملے میں میڈیا کو کوئی پروا نہیں اور میڈیا اور حکومت کے درمیان کوئی پالیسی پر مبنی بات چیت نہیں ہوتی۔ پاکستان کے پاس اتنے انگریزی نیوز چینلز نہیں کہ وہ وطن عزیز کی مثبت تصویر پیش کر سکیں۔ اس جنگ کا مقابلہ اکیلی ریاست یا افوج نہیں کرسکتیں، اس کے لیے عوام کی حمایت بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو اب بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ عوام کی محرومیوں کو ہمدردی سے سننا چاہیے، ان کو یہ اعتماد دینا چاہیے کہ ریاست یا حکومت ان کی مخالف نہیں ۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں سمیت پاکستانی معاشرے کے ہر حصے کو وطن عزیز کے خلاف بھارتی ہائبرڈ وارفیئر کا اجتماعی طور پر جواب دینا چاہیے۔