نیو کاسل: ماہرین اور سائنس دانوں نے ایسے نایاب دیو ہیکل کچھوے سے متعلق آگاہ کیا ہے جس کے حوالے سے خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ایک صدی سے زیادہ عرصے قبل ناپید یا معدوم ہوچکا ہے۔
بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے مطابق جینیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جنوبی امریکا کے ملک ایکواڈور کے گیلاپیگوس کے جزائر میں سے تین برس قبل دریافت ہونے والی مادہ کچھوا کا تعلق 1906 میں دریافت ہونے والی قسم سے ہے۔
بحر الکاہل میں موجود سالم جنگلی حیات کے ماحول فرنینڈینا جزیرے میں ایسے اشارے پائے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دریافت ہونے والی مادہ کچھوے کے ساتھ اس قسم کے مزید کچھوے بھی ممکنہ طور پر موجود ہوں گے۔
سائنس دانوں نے 1906 میں دریافت ہونے والی قسم اور 2019 میں سامنے آنے والی مادہ کی جینیاتی معلومات کو ترتیب میں رکھا اور گیلاپیگوس کے دیگر بڑے کچھوؤں کی تمام اقسام سے ان کا موازنہ کیا۔
کمیونیکیشنز بائیولوجی میں شائع شدہ نتائج کے مطابق سائنس دانوں کے سامنے یہ بات آئی کہ موازنہ کرنے پر ان دونوں کی جینیاتی معلومات اوروں کے بجائے آپس میں تعلق رکھتی تھیں۔
برطانیہ کی نیو کاسل یونیورسٹی کی لیکچرر اور تحقیق کی سربراہ مصنفہ ڈاکٹر ایویلین جینسن کا کہنا تھا کہ فرنینڈینا جزیرے پر اس نسل کے صرف دو کچھوے دریافت ہوئے اور محققین نے دِکھایا ،اس قسم کے مزید کچھوے بھی ہوسکتے ہیں جو گیلاپیگوس کے دیگر کچھووں سے مختلف ہوں۔بلاشبہ یہ دلچسپ دریافت ہے کہ یہ نسل معدوم نہیں بلکہ ابھی بھی حیات اور اپنا وجود رکھتی ہے۔