پھر وہ ڈراما یاد آیا

کابل سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں ممتاز افسانہ نگار اخلاق احمد کی خصوصی تحریر
اخلاق احمد

مجھے پھر وہ ڈراما یاد آیا۔ تھیٹر پر پیش کیا جانے والا وہ میوزیکل ڈراما جو بارہ زبانوں میں دنیا کے پچیس ملکوں کے لگ بھگ ڈھائی سو شہروں میں پیش کیا جا چکا ہے۔ لندن کے تھیٹر رائل میں روزانہ مسلسل دس سال تک اور امریکا کے براڈوے میں بھی مسلسل دس برس تک ہر روز اسٹیج ہونے والا ڈراما۔ یہ شاید اکیس بائیس برس پرانی بات ہے جب ہم نے وہ ڈراما دیکھا تھا۔

ابھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے نہیں ہوئے تھے۔ دنیا، نارمل انداز میں چلتی دنیا، بہت مزے کی جگہ تھی۔ لوگ اسامہ بن لادن کو جانتے تھے، نہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسی کسی اصطلاح سے آشنا تھے۔ ڈرامے کا نام تھا "مس سائیگان”۔ ہم بھارتی اور پاکستانی صحافیوں کا ایک گروپ تھا جو امریکی وزارت خارجہ کے ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا کا دورہ کر رہا تھا۔ جب ہم وہاں براڈوے پہنچے اس وقت اس ڈرامے کو نیویارک میں روزانہ اسٹیج ہوتے نو سال سے زیادہ گزر چکے تھے۔ ہمیں تھیٹر ویٹر سے بھلا کیا لینا دینا تھا۔ ہم تو اپنے ملک میں ہونے والے تھیٹر ڈراموں کو ہی تھیٹر سمجھتے تھے، لہٰذا براڈوے میں ہماری دلچسپی کا لیول بہت کم تھا۔ جب ہمیں بتایا گیا کہ ٹکٹ 75 ڈالر کا ہے جو ہمارے وظیفے سے منہا کیے جا چکے ہیں تو ہم نے اپنا سر پیٹ لیا۔ غصہ بھی آیا۔ ایسے میں ہم نے یہ بات سنی اور نظر انداز کر دی کہ بے چارے میزبانوں نے ہمارے لئے ایک ماہ پہلے ہی ٹکٹ خرید رکھے تھے کیونکہ ٹکٹ مشکل سے ملتے ہیں۔

بیزاری کے عالم میں ، طویل قطار میں لگ کر، اس بے پناہ وسیع تھیٹر میں داخل ہوتے ہی ہمیں جھٹکا لگا۔ سینکڑوں لوگ، عورتیں اور مرد، آڈیٹوریم جیسی قطار در قطار بنی آرام دہ کرسیوں پر ڈراما شروع ہونے کے منتظر تھے۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ ہم پرانے وقتوں کے اس دیہاتی کی طرح چوکنے ہو گئے جو پہلی بار کسی بڑے شہر میں روشنیوں کا سیلاب دیکھتا ہے۔ اسٹیج اتنا بڑا تھا کہ ہم نے کسی سینما میں بھی اتنا بڑا اسٹیج نہیں دیکھا تھا۔ ہمیں احساس ہونے لگا کہ ہم کسی اور دنیا میں داخل ہونے والے ہیں۔ کسی ایسی دنیا میں، جو ہماری جگت بازی اور ون لائنرز والی تھیٹر کی دنیا سے بہت آگے ہے۔ پھر روشنیاں مدھم ہونے لگیں، رفتہ رفتہ اندھیرا چھا گیا اور "مس سائیگان” شروع ہو گیا۔

ویت نام کے شہر سائیگان میں ایک شادی شدہ امریکی فوجی ‘ کرس ‘ اور ایک سترہ سالہ ویت نامی بار گرل ‘ کم ‘ کے درمیان استوار ہونے والے تعلق کی داستان۔ ایک ایسے عہد کا قصہ، جب امریکا ویت نام میں ناکام ہو چکا ہے اور اپنا بوریا بستر لپیٹ رہا ہے۔ یہ مکمل میوزیکل ڈراما تھا، یعنی جو کچھ کہنا یا بتانا مقصود تھا، وہ ڈائیلاگز کے بجائے نغموں کے ذریعے کہا جا رہا تھا۔ کہانی سادہ سی تھی۔ کرس اور کم کی والہانہ محبت، پھر اپنے محبوبوں اور وفاداروں کو وہیں چھوڑ کر امریکی فوجیوں کی ہنگامی وطن واپسی، اور اس کے بعد ویت نام میں ہی رہ جانے والی کم کی داستان، جو ماں بن چکی ہے اور کرس کو تلاش کرتے کرتے بالآخر امریکا جا پہنچتی ہے۔

‘مس سائیگان ‘ کی تین باتیں آج تک دل پر نقش ہیں: پہلی یہ کہ اس کی پروڈکشن کوالٹی ہم جیسوں کے لئے چشم کشا تھی۔ سیٹ، ملبوسات، لائٹنگ، ساؤنڈ، نغمے، پرفارمنس، ہر چیز جادوگری لگتی تھی۔ دوسری یہ کہ پورا ڈراما ایک شفاف آئینہ تھا، جس میں امریکا کی سیاسی غلطیاں چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی، اور تیسری چیز ایک منظر تھا جو لرزہ طاری کر دیتا تھا۔ صرف 53 سیکنڈ کا ایک منظر، جو کسی تیز دھار خنجر کی طرح دل کو چیرتا گزر جاتا تھا۔ یہ ایک فلیش بیک جیسا منظر تھا۔ مگر بالکل ناقابل یقین۔ ایک فوجی ہیلی کاپٹر امریکی سفارت خانے کی چھت پر اترتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے گھومتے پنکھوں کے کان پھاڑ دینے والے شور سے ہال گونج رہا ہے ۔ امریکی فوجی ایک رسی کی سیڑھی کے ذریعے ہیلی کاپٹر پر چڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کے وفادار ویت نامی، ان کی محبوبائیں اور بیویاں، ویت نام میں ہی پیدا ہونے والے ان کے بچے چیخ رہے ہیں، ان کے پیر تھام رہے ہیں، گڑگڑا رہے ہیں، اپنے ساتھ لے جانے کی التجائیں کر رہے ہیں، لیکن وہ فوجی انہیں دور دھکیلتے ہوئے، ایک جھٹکے سے اپنے پیر چھڑاتے ہوئے، ہیلی کاپٹر پر چڑھتے جا رہے ہیں۔ وہ منظر میں کبھی نہ بھول سکا۔ بعد میں اس ہیلی کاپٹر کی حقیقت جان لینے کے باوجود نہ بھول سکا۔ وہ فائبر کا بنا ہوا لائف سائز ہیلی کاپٹر ماڈل تھا۔ صرف کاک پٹ، ٹیل لائٹ، اور روٹر۔ آواز اور لائٹس کے جادو سے یوں لگتا تھا کہ ایک سچ مچ کا فوجی ہیلی کاپٹر اسٹیج پر معلق ہے۔ پروڈکشن کا حیرت انگیز کمال۔ مگر اس کمال سے بھی کہیں آگے وہ منظر تھا، وہ چیخیں، وہ آہ و زاری تھی جو ویت نام میں بے سہارا چھوڑ دیے جانے والوں کے سینے سے اٹھتی تھیں اور عرش تک جاتی محسوس ہوتی تھیں ۔ کابل ایئرپورٹ کے مناظر دیکھے تو ‘مس سائیگان’ بے اختیار یاد آیا۔