سینٹ لوئی: سائنس دانوں کا بڑا کارنامہ، امریکی سائنس دانوں نے بجلی محفوظ کرنے والی اینٹیں ایجاد کرلیں، ایک اینٹ کی مدد سے دس منٹ تک ایل ای ڈی جلاکر اپنی کامیابی کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔
’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع رپورٹ کے مطابق، سینٹ لوئی میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی میں شعبہ کیمیا کے اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر جولیو ڈی آرکی اور ان کے ساتھیوں نے بھٹے میں پکی ہوئی سرخ اینٹوں پر ایک خاص نامیاتی پولیمر کے بخارات جمع کیے، جس کے بعد وہ توانائی ذخیرہ کرنے والے ایک آلے ’’سپر کپیسٹر‘‘ میں تبدیل ہوگیا۔
بھٹے میں پکی ہوئی سرخ اینٹیں پاکستان سمیت دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں تعمیراتی مقاصد کے لیے عام استعمال ہورہی ہیں۔ ان کی سرخ رنگت ’’آئرن آکسائیڈ‘‘ نامی ایک مرکب کی وجہ سے ہوتی ہے جو دراصل ’’زنگ‘‘ کا دوسرا نام ہے؛ اور یہی زنگ ان اینٹوں کو بجلی ذخیرہ کرنے کے قابل بنانے میں اہم ترین ہے۔
اس طرح یہ پہلا موقع ہے کہ جب اِن سرخ اینٹوں کو بجلی ذخیرہ کرنے والے سپر کپیسٹرز میں تبدیل کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر جولیو پچھلے کئی سال سے ’’پیڈوٹ‘‘ (PEDOT) کہلانے والے ایک نامیاتی مرکب پر تحقیق میں مصروف ہیں اور اسے توانائی سے متعلق مختلف کاموں میں استعمال کرچکے ہیں۔ اس نامیاتی مرکب میں سے بجلی گزر سکتی ہے اور یہی صلاحیت اسے توانائی سے متعلق امور میں مفید بناتی ہے۔
اپنے تحقیقی مقالے میں تازہ کامیابی کا احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ پہلے مرحلے میں سرخ اینٹوں کو 160 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کیا گیا اور پھر اسی درجہ حرارت پر انہیں پیڈوٹ کے بخارات میں رکھ دیا گیا۔
یہ نامیاتی مرکب آہستہ آہستہ ان سرخ اینٹوں کے باریک مساموں میں جمع ہوتا گیا۔ 160 ڈگری سینٹی گریڈ پر اینٹوں میں موجود آئرن آکسائیڈ کی وجہ سے پیڈوٹ کی لمبی لمبی سالماتی زنجیریں یعنی پولیمرز بننے لگیں۔ اس طرح تھوڑی دیر بعد اینٹوں کی سطح ایک ایسے مادّے میں تبدیل ہوگئی جس سے نہ صرف بجلی گزر سکتی تھی بلکہ ذخیرہ بھی کی جاسکتی تھی۔
اگلے مرحلے میں ان ’’ذہین اینٹوں‘‘ (smart bricks) کو کسی بیٹری کی طرح ’’چارج‘‘ کرکے ان میں بجلی محفوظ کی گئی۔ ایسی ایک اینٹ سے چھوٹی ایل ای ڈی کو دس منٹ تک چلانے کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
ذہین اینٹیں ایجاد کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسی ہر اینٹ دس ہزار مرتبہ چارج اور ڈسچارج ہونے کے بعد بھی بجلی ذخیرہ کرنے کے قابل رہتی ہے۔