تحریک انصاف کشمیر کا الیکشن جیتنے کیساتھ ساتھ سیالکوٹ کا ضمنی الیکشن جیت چکی ۔ حالیہ ان دو الیکشنوں میں کامیابی کے بعد حکمران جماعت حسب سابق دھاندلی جیسے الزامات کی ضد میں ہے ۔
مخالف سیاسی جماعتوں نے ان دونوں جگہ پر ہونے والے الیکشن میں حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے جو کہ ایک معمولی بات ہے کیونکہ پاکستان کے ہر الیکشن میں ہارنے والا امیدوار جیتنے والے پر دھاندلی کے الزامات لگاتا ہے ۔ جہاں تک کشمیر کے الیکشن کی بات ہے تو اس کے بارے میں یہ بات عرف عام میں ہے کہ جس بھی پارٹی کی اسلام آباد میں حکومت ہے وہی مظفرآباد پر راج کرے گی تو وہاں شاید دھاندلی کے الزامات لگانا بظاہر مناسب نہیں لگتا لیکن اگر بعد میں کوئی جماعت یہ کہے کہ ہمیں اتنی نشستوں پر کامیابی کی یقین دھانی کرائی گئی تھی اور ایسا نہیں ہوا تو یہ بات کہیں نہ کہیں انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیتی ہے ۔ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے کیے گئے اس دعوے کو نہ صرف پاکستان کے میڈیا میں بلکہ ھندوستان میں بھی بعض لوگوں نے اس کا زکر کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ اگر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگتا ہے تو ھندوستان تو اس پر لب کشائی کرے گا باوجود اس کے کہ پاکستان کے کسی بھی الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگنا ایک عام بات ہے ۔ہاں البتہ اس الیکشن نے دیگر جماعتوں کی نسبت تحریک انصاف کے مورال کو بلند کر دیا ہے ۔ تحریک انصاف اس سے قبل حکومت میں ہونے کے باوجود ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کر رہی تھی اور حکومت میں ہونے کے باوجود ضمنی انتخابات میں شکست ہونے کی وجہ سے حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں ۔ ویسے تو ضمنی الیکشن حکومت کا ہی الیکشن ہوتا ہے لیکن حکومتی جماعت کی پے در پے شکست کی وجہ سے اسے شدید سیاسی دباؤ کا سامنا تھا اور اب پاکستان تحریک انصاف کو اس دباؤ سے تھوڑا سا ریلیف ملا ہے ۔ تحریک انصاف یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ مرکز ، پنجاب ، پختونخوا ، بلوچستان ، گلگت اور آزاد کشمیر میں فتح کے بعد وہ سندھ میں بھی اگلے الیکشن میں اپنی حکومت بنائے گی تاہم اس کیلئے تحریک انصاف کو پولیٹیکل گراؤنڈ پر سخت محنت اور پرفارمنس کے زریعے سے بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت مفاہمت و مزاحمت کی سیاست کے بیانئے کو لیکر کنفیوژن کا شکار ہے ۔ مسلم لیگ ن میں دو متضاد بیانئے اس جماعت کی سیاست کو تقسیم کر رہے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کا کارکن اور ووٹر دونوں اس حوالے سے تزبزب کا شکار ہے ۔ ن لیگ کے بڑوں کے جلد یہ فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ آیا انہوں نے ” ووٹ کو عزت دو ” کے بیانئے کو اپناتے ہوئے جارہانہ سیاست کرنی ہے یا پھر اس اداروں پر حملہ آوار ہونے کی پالیسی کو ترک کر کے مفاہمت کے زریعے عملی سیاست کرنی ہے ۔ ن لیگ کو مزاحمتی سیاست نے بہت نقصان پہنچایا ہے اور اگر اس کے باوجود وہ اپنی اس روش کو برقرار رکھتی ہے تو شاید اسے سیاسی طور پر مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی چاروں صوبوں کی جماعت ہوا کرتی تھی آج ایک صوبے تک محدود ہے ۔ یہ جماعت اگرچہ اسلام آباد پر حکمرانی کا خواب تو دیکھتی ہے لیکن عملی طور پر اس پوزیشن میں نہیں کہ آئندہ الیکشن میں کوئی بڑا پولیٹیکل اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہو سکے ماسوائے اس کے کہ سندھ یا جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کی چند نشستیں حاصل کر لے ۔ پیپلز پارٹی کو وفاق میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے پنجاب میں ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے ۔
اگر دیگر جماعتوں سیاسی یا مذہبی سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو ان میں سے کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جو قومی سطح کوئی بڑا پولیٹیکل ایڈونچر کر سکے البتہ یہ تمام جماعتیں اپنے اپنے کلاؤڈ کے زریعے سے کوئی تھوڑا بہت سیاسی فائدہ ضرور حاصل کر سکتی ہیں تاہم یہ ضروری اس کا فیصلہ آنے والے الیکشن کے انتخابی نتائج کریں گے کہ کون کیا کر پاتا ہے ۔ اس کیلئے تمام قومی و صوبائی سطح کی مزہبی سیاسی و سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔