کراچی ایک ایسا تاریخی شہر ہے جہاں ماضی کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں، لیکن اب یہ کہانیاں آہستہ آہستہ مدھم پڑتی جارہی ہیں۔
کلفٹن کا ساحل، جہاں سمندر کی لہریں سڑک پر بنے پتھروں کے بند سے سر ٹکراتی تھیں، اب اس دیوار سے روٹھ کر دور جاچکا ہے، یہاں کی تعمیر کرنے والے انگریز واپس جاچکے ہیں، کراچی کی محسن پارسی کمیونٹی کے بھی اب یہاں چند لوگ باقی ہیں۔ کئی دہائیوں تک اس شہر کی پہچان رہنے والی عمارتیں ختم ہوتی جارہی ہیں، جو باقی ہیں، وہ اپنا حسن کھورہی ہیں۔
کراچی کا علاقہ صدر قدیم برطانوی طرز تعمیر رکھنے والی عمارات سے بھرا پڑا ہے۔ ہر عمارت کی اپنی ایک الگ دستان ہے۔ ایسی داستان جو اب جدید دور سے گلے مل کر رخصت ہونے جارہی ہے۔ ان عمارتوں پر، جن کی مسکراہٹ پر کبھی ایک دنیا فریفتہ تھی، آج ادسی کے ڈیرے ہیں۔ عدم دیکھ ریکھ کے باعث ان کے خال و خد بگڑتے اور ان کی چمک دمک ماند پڑتی جارہی ہے۔
اس شہر کی رونقوں میں بعض عمارتیں اپنی شان و شوکت اور رقبے یا بلندی کے باعث ممتاز مقام رکھتی تھیں، جب کہ بعض عمارتیں اگرچہ اتنی پرشکوہ یا بلند و بالا یو وسیع و عریض نہیں تھیں، لیکن ان کی بناوٹ خوبصورت تھی، ساتھ ہی ان کی ایک اور وجہ شہرت ان عمارتوں میں شہرت یافتہ مصنفین، مفکرین، شعرائے کرام، فنکار، طالبعم رہنما اور اعلیٰ افسران سمیت دیگر ممتاز شخصیات کی رہائش یا مستقل بنیادوں پر یا اکثر و بیش تر آمد تھی۔ ان عمارتوں میں کیفے جارج اپنے خاص مٹن پیٹیز کے لیے مشہور تھا، کیفے آکسفورڈ میں نان، چانپ اور چائے مناسب نرخ پر ملتے تھے، اور فریڈرک کیفے ٹیریا گھڑ دوڑ اور ریس کے رسیا افراد کی میٹنگوں کو مرکز تھا، جہاں یہ شوقین افراد ہفتے میں کم از کم دو بار اکھٹے ہوا کرتے تھے۔ حالیہ برسوں میں تزئین و آرائش کی جانے والی ایسی ہی عمارات میں ایڈورڈ ہاؤس بھی شامل ہے، جو ایک فخریہ تاریخ رکھتی ہے۔
ایڈورڈ ہاؤس کی تعمیر 1910 میں شروع ہوئی اور فروری 1912 میں مکمل ہوئی۔ یہ عمارت عبداللہ ہارون روڈ پر واقع ہے اور کاوس جی خاندان کی ملکیت ہے۔ اس عمارت کی تعمیر معروف برطانوی ماہرِ تعمیرات موسس سوماک نے کی تھی اور اس کا نام اس کے بیٹے ایلس ایڈورڈ کے نام پر رکھا گیا تھا۔
سوماک اس سے قبل بھی کراچی شہر میں کئی خوبصورت عمارتیں تعمیر کرچکا تھا۔ ایڈورڈ ہاؤس کا ڈیزائن اس نے روایتی طور پر کاغذی نقشے کے مطابق تیار نہیں کیا، بلکہ صرف اپنے جمالیاتی ذوق اور عوامی رجحان سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن تیار کیا۔ عمارت کا سامنے کا حصہ قدیم برطانوی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔پتھروں کو بڑی مہارت سے تراش کر خوبصورت ڈیزائن یوں بنائے گئے ہیں کہ عمارت کا ایک ایک پتھر اپنے کاریگر کے کام کی عظمت کی گواہی دے رہا ہے۔ ایڈورڈ ہاؤس کی تعمیر اور اس کا ڈیزائن دیکھ کر آج بھی لوگ کراچی کے سنہرے ماضی میں کھو جاتے ہیں۔
اس عمارت کے قریب سے گزریں تو سب سے پہلے جو چیز آپ کو اپنی جانب متوجہ کرلے گی، اس کی بالکونیاں ہیں، جو خوبصورت تراشیدہ لکڑی سے آراستہ ہیں۔ عمارت کے مرکزی حصے میں لکڑی سے بنا ایک زینہ ہے، جو چھت سے ہوتا ہوا بیل ٹاور تک پہنچتا ہے۔ یہ بیل ٹاور اس عمارت کی بلندی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ اس عمارت کی تعمیر میں ساحلی پتھر اور سنگِ مرمر استعمال کیا گیا، جس پر کٹائی کرکے خوبصورت ڈیزائن بنائے گئے تھے۔ یہ منقش پتھر اس عمارت کی زیبائش میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور عمارت وکٹوریہ مینشن ہے، اس کا نقشہ بھی سیموک نے ہی بنایا تھا۔ یہ دونوں عمارتوں خاصی ملتی جلتی ہیں، تاہم وکٹوریہ مینشن کا ریکارڈ کہیں دستیاب نہیں۔
ایڈورڈ ہاؤس نامی یہ عمارت اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک اور پہچان بھی رکھتی ہے، اور وہ پہچان ہے "کیفے گرانڈ” جو اس کی فرشی منزل پر قائم تھا۔ برطانوی راج میں قائم ہونے والی اس کیفے میں کراچی کی متمول شخصیات آیا کرتی تھیں۔ کیفے گرانڈ نے اپنی خدمات 1920ء میں شروع کی تھیں اور کئی دہائیوں تک بڑے افسروں کا میزبان رہا۔ یہ کیفے اپنی پیسٹریوں، کورین ریسٹورنٹ اور ذائقے دار پاکستانی کھانوں کے لیے بڑی شہرت رکھتا تھا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں کیفے گرانڈ اپنے مہمانوں کو لذیذ کھانے فراہم کرتا رہا۔ پھر 1915ء میں جیمخانہ کلب کے قریب ایک مرکزی رہائشی ہوٹل قائم ہوا، جو پندرہ کمروں پر مشتمل تھا۔ کیفے گرانڈ کا پہلا مالک ہربرٹ برٹی کمپر نامی برطانوی شہری تھا جس کا تعلق ویلز سے تھا۔ اس نے بعد میں کیفے ایک پنجابی مسلمان کے ہاتھوں فروخت کردیا، بعد ازاں 1964ء میں اس کی ملکیت سعید بیکرز نے حاصل کرلی۔
کیفے گرانڈ نے اپنے وقت میں متعدد لکھاریوں، مقررین اور ترقی پسندوں کی میزبانی کی۔ بیش تر بیوروکریٹس اور بہت سے سیاستدان بھی یہاں آیا کرتے۔ یہاں آنے والوں میں بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح، ان کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، غلام محمد اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے رہنما شامل تھے، جو اکثر یہاں آیا کرتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر عمائدین شہر اپنے گھر کی پارٹیوں کے لیے کیفے گرانڈ ہی سے سینڈوچ اور دیگر اشیاء منگوایا کرتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کیفے کی رونقیں ماند پڑنے لگیں اور آخر کار یہ بند ہوگیا۔ دو ہزار گیارہ کے وسط میں اس کیفے کی ملکیت محمد رفیع عظیمی صاحب کے پاس آگئی، جو پینتیس برس تک پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز میں بطور کوالٹی کنٹرول مینیجر اور اسٹیشن میجینر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے۔ کراچی سے شائی ہونے والے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کو انہوں نے ایک انٹرویو دیا تھا۔ یہ انٹرویو 23 جون 2012ء کو شائع ہوا تھا۔ رپورٹر صبا امتیاز کو دیے گئے اپنے اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، "یہ کیفے دراصل کراچی کی قدیم ترین بیکریوں میں سے ایک تھی۔ ہمیں فخر ہے کہ اس بیکری کے گاہکوں نے کئی دہائیوں تک ہم پر اعتماد کیا۔” ماضی کو کریدنے پر انہوں نے بتایا، "مجھے کیفے گرانڈ میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی، جب میں نے اخبار میں ایک اشتہار پڑھا۔ وہ اشتہار ایک سرمایہ کار کی جانب سے دیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ سرمایہ کاری میں ایک پارٹنر کی تلاش میں ہے۔ یہ بات 2011 کی ہے۔ میں نے اشتہار پڑھ کر سرمایہ کار سے رابطہ کیا اور اس کے ساتھ شراکت اختیار کرلی۔”
محمد رفیع عظیمی خلاؤں میں گھورتے ہوئے دوبارہ گویا ہوئے، ” گزشتہ برس ہم نے اس کی تزئین و آرائش شروع کی تھی۔ کئی ماہ کے کام کے بعد یہ کام مکمل ہوگیا ور ہم نے جنوری 2012ء میں ماضی کی کیفے گرانڈ کو ایک بار پھر بحال کردیا۔ ہم نے اپنے مہمانوں کے لیے یہاں خاص ڈشیں تیار کرنی شروع کیں، جن میں میکسیکن کھانے، اطالوی پیزا اور برگرز بہت پسند کیے گئے۔ میں نے یہاں استعمال کے لیے برتنوں سمیت تمام اشیاء بیرون ملک سے ممنگوائیں۔ جب ہم نے اس ہوٹل کا چارج سنبھالا تھا تو اس وقت یہاں نہ پانی تھا اور نہ گیس، یہاں تک کہ بجلی یہاں کی بجلی تک کٹ چکی تھی۔ ہم نے تمام چیزیں دوبارہ بحال کرائیں۔ ساتھ ہیں فرش پر لگی پرانی ٹائلیں جو عدم توجہ کے باعث جگہ جگہ سے اکھڑ چکی تھیں یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، ان کی جگہ اسی ڈیزائن کی نئی ٹائلیں خاص طور پر بنوا کر لگوائیں۔ ان ٹائلوں کو دیکھ کر گمان بھی نہیں ہوتا تھا کہ یہاں نئی ٹائلیں لگی ہیں۔ کیفے کی بحالی پر ہمیں یہاں آنے والے مہمانوں کی طرف سے بھرپور ریسپانس ملا۔”
عظیمی صاحب کچھ دیر تک خاموش رہے، پھر اداسی سے کہنا شروع کیا، "ابھی اس کیفے کی بحالی کو چند ہی ماہ گزرے تھے کہ یہاں قریبی دفاتر کے عملے کے افراد اور پولیس اہلکاروں اور افسران کی آمد بھی شروع ہوگئی۔ وہ کیفے سے کچھ کھانے کی بجائے اپنے ساتھ تھیلیوں میں بریانی لاتے، اور واپسی پر چکنائی سے بھرپور پلیتیں اور برتن چھوڑ جاتے۔ ہمارے کیفے سے بس وہ لوگ چائے یا کولڈ ڈرنک پیا کرتے۔ یوں ہمارے ہاں خاص طور پر منگوائی جانے والی کافی رکھے رکھے باسی ہونے لگی، فرایئرز گرد آلود رہنے لگے اور پیز اوون بھی ناکارہ ہوگئے۔ اس طرح کیفے گرانڈ کی بحالی کا منصوبہ غلط ثابت ہوا۔ میں نے اپنی بیوی کے زیورات اور اپنی ذاتی کار تک کیفے کی بحالی کے لیے فروخت کردیے تھے، کہ آخر ہمیں اپنا گھر تو چلانا تھا۔”
عظیمی صاحب اپنے پارٹنر کے رویے سے بھی دل برداشتہ نظر آئے، کہنے لگے، "اچھا دور ختم ہوگیا، میرے پارٹنر نے، جس کا اشتہار دیکھ کر میں نے اس کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کی تھی، کبھی کیفے گرانڈ کے معاملات پر مجھ سے بات کرنا تو درکنار، کبھی میرے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس کیفے کو صرف اچھی انتظامیہ کی ضرورت تھی۔ میں خود اچھا شیف ہوں اور تمام کھانے بنا سکتا ہوں، اگر میرا پارٹنر کیفے کے انتظامی امور سنبھال لیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔”
"کیفے کی ناکامی کی اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ ریڈ زون پر واقع ہے، اس لیے گاہک اپنے گاڑیاں کیفے کے سامنے کھڑی نہیں کرسکتے۔ قریب واقع پارکنگ کی جگہوں پر دفاتر والوں کا قبضہ ہے، جہاں ان کے عملے کی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔” محمد رفیع عظیمی تمام تر افسردگی کے باوجود اب بھی پر امید ہیں کہ اگر اس جگہ پر اب چینی کھانوں کا ریسٹورنٹ کھولا جائے تو ایک بار پھر کیفے گرانڈ آباد ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے کسی اچھے چینی ریسٹورنٹ سے کنٹریکٹ کرنا ہوگا۔ آس پاس کے علاقے میں کہیں کوئی ایسا ریسٹورنٹ نہیں، جہاں چینی کھانے دستیاب ہوں۔ چینی کھانے کھانے کے لیے لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ عام طور پر شام سات بجے کے لیے ہی نکلتے ہیں۔ یہ بہت اچھا وقت ہے، کیوں کہ سارا دن گاڑیوں سے بھری پارکنگ شام کے وقت دفاتر کی چھتی کے بعد خالی ہوجاتی ہے۔”
وقت گزرتا رہا اور دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ پانچ سال بعد یعنی 2017ء کاشف وارثی اور ڈاکٹر عنبر تاجور نے اس کیفے کی باگ ڈور سنبھالی اور نیا کام یہ کیا کہ انہوں نے نہ صرف اس کی عمارت کی ایک بار پھر تزئین و آرائش کی بلکہ اسے روایتی کیفے گرانڈ کی طرح دوبارہ کھولنے کے بجائے جدید سہولیات سے آراستہ کلب کی صورت دے دی اور اس کا نام تبدیل کرکے "اسٹارز کلب” کا نام دے دیا گیا۔ قیمتی اور عمدہ لباس میں ملبوس مختلف اسٹارز یہاں آتے رہے ہیں، بہت سے سیاح بھی اپنے فرصت کے لمحات یہاں گزارا کرتے تھے۔ اگر ایڈورڈ ہاؤس نے اپنا سنہرا دور نہ دیکھا ہوتا تو شاید اسٹارز کلب مدتوں لوگوں کو یاد رہتا۔
آج کل اس عمارت کی فرشی منزل پر افغان کارپٹس کا شو روم اور گیزر فروخت کرنے والی دکان واقع ہیں اور اس کے داخلی راستے پر ایک شخص نے فوٹو کاپی مشین رکھ کر اپنا کام شروع کیا ہوا ہے۔ فرشی منزل ہی پر قائم "طاہر فرنشنگ کمپنی” نامی ایک دکان ہے، جسے رحیم نامی عمر رسیدہ تاجر چلا رہا ہے۔ یہ دکان اس کے والد نے تقریباً اسی برس قبل کھولی تھی۔ وہ اب تک اس عمارت کے کئی ادوار دیکھ چکے ہیں۔ رحیم کا مزید ہے کہ اسے یاد ہے کہ مادرِ ملت فاطمہ جناح اکثر یہاں ملاقاتوں کے لیے تشریف لایا کرتی تھیں۔ ان کی سفید مرسڈیز میں ان کے پالتو کتے بھی ہوا کرتے تھے۔ قائدِ اعظم کی بہن ہونے کے ناطے ہر شخص ان کی عزت کیا کرتا تھا۔
اس عمارت کی پہلی منزل پر دو اپارٹمنٹس ہیں، جس میں سے ایک میں ماہرِ تعمیرات کا دفتر قائم ہے جبکہ دوسرا اپارٹمنٹ ایک خاتون مسز طارق نے کرائے پر حاصل کررکھا ہے، جو اپنی والدہ اور بیٹیوں کے ساتھ یہاں رہتی ہیں۔ اس عمارت سے اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہوئے مسز طاہر کا کہنا ہے کہ یہ عمارت ایک لاوارث ریاست کی طرح ہے۔ میں یہاں گزشتہ پانچ دہائیوں سے یہاں رہ رہی ہوں۔ اس عمارت میں اندرونی طور پر کیا کیا بگاڑ آچکے ہیں، میں ان سے بخوبی واقف ہوں۔ اس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑ رہا ہے، چھت تباہ ہورہی ہے اور رنگ روغن جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہے۔ نکاسی آب کی لائنیں کائی زدہ ہوچکی ہیں اور عمارت کی اندرونی حالت انتہائی حستہ حال ہوچکی ہے، جس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔
ڈیڈی سورتی پاکستان کے انتہائی قابلِ ذکر ماہر تعمیرات ہیں۔ ان کی تعمیراتی کمپنی کا دفتر عمارت کی پہلی منزل پر 1965 سے قائم ہے۔ کہتے ہیں، "کبھی ان کھڑکیوں سےروشنی اور ہوا اندر آیا کرتی تھی، لیکن اب گرمی اور ٹریفک کا شور آتا ہے۔ ٹیک کی لکڑی سے بنا فرش اپنا حسن کھو چکا ہے، جس پر پالش کی سخت ضرورت ہے۔ کرایہ دار ہونے کے ناطے ہم مزید کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔”
اس عمارت کو سندھ کلچرل پریزرویشن ایکٹ 1994 کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔ 2010 میں شروع کیے جانے والے ری ہیبیلیٹیشن انڈ کنزرویشن پروجیکٹ کے تحت اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔ جو 2012ء میں مکمل ہوئ۔ اس عمارت کی بحالی کے کام کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ تنقید کاروں کا کہنا تھا کہ یہ محکمہ آثارِ قدیمہ نے یہ کام ناتجربہ کار ٹھیکیدار کو دیا، جس کی وجہ سے عمارت اپنی اصل حالت میں آنے کی بجائے کچھ مختلف شکل اختیار کرگئی تھی اور ٹھیکیدار کے مزدوروں نے عمارت کے پتھروں پر ابھرے ہوئے کام کو چھینی سے ضرب لگا لگا کر مزید خراب کردیا تھا۔ اگر محکمہ آثارِ قدیمہ سندھ اس عمارت کی دیکھ بھال درست طور پر کرے اور لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرح کیفے گرانڈ کو بھی بحال کرکے اس کے اخراجات و انتظامات خود سنبھال لے تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر کے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور باشعور شہریوں کو ایک ایسی جگہ میسر آسکے جس کی اس شہر کو بری مدت سے ضرورت ہے۔
محنت سے لکھا گیا مضمون۔ آپ نمے بہت اچھی معدلومات یک جا کر دی ہیں۔ بہت خوب۔