آٹھ اکتوبر 2005 کی صبح بھی عام دنوں کی طرح ہی طلوع ہوئی تھی، مظفرآباد اور بالاکوٹ میں لوگ خوشی کی چہک اور خواب کی مہک میں مگن تھے، کسی کویہ پتا نہ تھاکہ آن کی آن میں وہ فنا کے اندھیرے میں اتر جائیں گے۔
قیامت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اچانک آ کر رہے گی۔ بس اسی طرح یہ قیامت صغریٰ تھی جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ جب یہ قیامت خیز زلزلہ آیا تو میں مظفرآباد کے شہر میں عارضی طور پر مقیم تھا۔ زلزلے کے ایک ہی جھٹکے نے ہنستے بستے شہر مظفرآباد کو بربادکرکے رکھ دیا۔ جب میں اورمیرے بچے قیام گاہ سے باہر آئے تو محلے کے بیش تر مکانات کو زمین بوس ہو تے دیکھا۔ گیٹ سے باہرقدم نکالا تو زمین شق تھی اور اس پر خوفناک دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ گھر کے سامنے والی پہلی گلی بچوں ،جوانوں، بوڑھوں اورخواتین کی لاشوں سے اٹی پڑی تھی۔ یہ دیکھ کر میں الٹے قدم پھر گھر میں اپنے بچوں کے پاس پہنچا۔ اللہ رب العالمین کے کرم سے ہمارا گھر محفوظ رہا، لیکن گھر کے چھت پر بنی پانی کی ٹنکی بدستور چھلک رہی تھی۔ گھر کے صحن میں بیٹھے ہم مظفرآباد کے پہاڑوں کی طرف دیکھ رہے تھے تو وہ ہل رہے تھے، جبکہ زمین مسلسل کانپ رہی تھی۔ اور پھر یہ زمین دو دن تک آفٹر شاکس کی وجہ سے لرزتی اور کانپتی رہی۔ ہمارے گھر کے عین سامنے ہمارے انتہائی شفیق اور ہر دلعزیز ہمسایہ انجینئر بشیر صاحب کے تمام اہلِ خانہ بحفاظت گھر سے باہر آئے لیکن ان کی بہو نے ان سے کہا کہ ان کی کوئی چیز اندر ر ہ گئی ہے۔ وہ اسے لینے جونہی گھرمیں داخل ہوئی توپوری کوٹھی گرگئی اور وہ وہیں جان بحق ہو گئی۔ اس طرح اس کے دو ماہ کے شیر خوار بچے کے سر سے ماں کا سایہ رحمت اٹھ گیا۔
میرے پڑوس میں انتہائی کہنہ مشق لیکچرار افتخار احمد بھی اپنے گھر کے ملبے کے نیچے آ کر جا ں بحق ہوئے۔ سری نگر سے تعلق رکھنے والے میرے پڑوسی حیدر بھائی ایک بچے کو اسکول چھوڑ کرآئے تھے۔ جونہی وہ گھر میں داخل ہوئے توزلزلہ آگیا۔ تین منزلہ مکان، جس میں وہ عارضی طور پر قیام پذیر تھے، زمین بوس ہوگیا۔ وہ خود اور ان کی اہلیہ، جو ضلع پلوامہ سے تعلق رکھتی تھیں، جاں بحق ہو گئے، لیکن ان کا پانچ سالہ بچہ کئی گھنٹوں کے بعد مکان کے ملبے سے زندہ باہر نکال لیا گیا، اس پر سب متعجب ہوئے۔ موبائل فون ابھی تک عام نہیں ہوئے تھے البتہ لینڈ لائن فون کے کنکشن ہمارے گھروں میں نصب تھے، لیکن زلزلے کے پہلے ہی جھٹکے نے لینڈ لائن کا خاتمہ کردیا، یوں مظفرآباد شہر کا تمام مواصلاتی نظام آن واحد میں ختم ہوگیا۔ اس لئے مظفرآباد سے کسی کو یہ پتاہی نہ چل سکا کہ شہر میں زلزلے نے کس قدر قیامت ڈھائی۔
اگرچہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے تھے اور اسلام آباد کا مارگلہ ہوٹل تباہ ہوچکا تھا، لیکن یہ جھٹکے اس قدر قیامت خیز نہیں تھے، جو شدت اس کی مظفرآباد یا بالاکوٹ میں تھی۔ مظفرآباد جانے والے تمام راستے پہاڑ ٹوٹ جانے کی وجہ سے بند پڑے تھے۔ رات ہم نے کھلے آسمان کے نیچے اس عالم میں گزاری کہ دائیں بائیں لاشیں ہی لاشیں تھیں، کیونکہ جن لوگوں کے عزیر و اقارب پہلے جھٹکے میں جاں بحق ہوئے تھے، وہ انہیں کھلے اور خالی میدان میں اپنے ساتھ لائے تھے۔ انہیں دفنانے کے لئے قبرستانوں تک پہنچنے کی کسی میں تاب تھی اور نہ قبرستانوں کی طرف جانے والے راستے موجود رہے تھے۔ سڑکیں پھٹ چکی تھیں، مکانات گر چکے تھے۔ کفن دستیاب تھا اور نہ ہی جنازہ پڑھانے والے علماء یا آئمہ مساجد۔ ان میتوں کی لاشوں سے تعفن پھیل رہا تھا اور ایک مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔ یہ کھلی اراضی ہمارے دفتر سنیٹرل پلیٹ قلعہ مظفرآباد کے بالکل عقب میں تھی، جس میں لائی گئی بے شمار میتوں کا جنازہ ہم نے پڑھایا اور ہمارے دفتر کے سامنے ایک خالی جگہ پڑی تھی، جہاں لوگوں نے اپنے عزیزوں کی میتوں کو دفنانے کے لئے اسی میں قبریں کھودیں۔ اگلے روز ہم نے قریبی قبرستانوں میں جا کر دیکھا کہ ایک ہی جگہ میں کئی کئی لاشوں کو نماز جنازہ کے بغیر دفنایا جاتارہا۔ میتوں کو غسل دینا یا کفن تیار کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ ہمارے اس وقت کے ناظم دفتر شاکر علی خان کی اہلیہ اس زلزلے میں اپنے چار ماہ کے شیر خوار بچے کے ساتھ جاں بحق ہوئیں، جنہیں ہم نے امانتاََ مظفرآباد میں دفنا دیااور تین ماہ کے بعد ان کی لاشوں کو نکال کر اٹھ مقام خاتون کے آبائی علاقے میں بھیج دیا، جہاں انہیں آبائی قبرستان میں دفنایا گیا۔ ہمارے اس وقت کے کیمپوٹر آپریٹر محمد حنیف اعوان صاحب، جو آج کل چیف جسٹس آف آزاد کشمیر کے پرنسپل سیکریٹری ہیں، ان کی آٹھ سالہ بیٹی کرن بھی اس زلزلے میں شہید ہوئی۔ کرن حنیف کی نماز جنازہ پڑھنے والاکوئی نہ تھا۔ بس نفسی نفسی کے عالم میں سب اپنے مرحومین اور اپنے زخمیوں کے ساتھ مصروف تھے۔ بس قیامت صغریٰ کاعالم تھا۔
اب کی صورتحال یہ ہے کہ سانحہ 8 اکتوبر 2005 میں تباہ ہونے والے شہر پہلے سے کہیں بہتر آباد ہو چکے ہیں، لیکن ان شہروں کے مکین اپنے ان پیاروں کو نہیں بھلا پائے، جو ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو کر زیر زمین جا بسے ہیں۔ آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کو آج پورے پندرہ برس بیت چکے ہیں، لیکن ہم لوگ اپنے رب کو بھول رہے ہیں۔ اس قیامت خیز زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.6 تھی۔ اس زلزلے سے آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد اور صوبہ خیبر پختونخوا کا بالاکوٹ شہر مکمل تباہ ہوا، جبکہ باغ، ہزارہ اور راولاکوٹ میں ہزاروں لوگ متاثر ہوئے تھے۔
اس زلزلے نے کشمیر کے شمالی اضلاع کو اس بری طرح جھنجوڑ ا کہ آن کی آن میں 17ہزار بچوں سمیت 73 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے اور ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے۔ چھ لاکھ گھر تباہ ہوئے جبکہ 28 لاکھ افراد آنا فانا بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ اس زلزلے کا مرکز مظفرآباد سے بیس کلومیٹر شمال مشرق میں تھا۔ نقصان کا تخمینہ تقریبا 124 ارب روپے لگایا گیا۔ اسکول، اسپتال، سڑکیں اور سرکاری دفاتر سب کچھ ڈھیر ہو چکا تھا۔ زلزلے کی شدت اور سنگینی کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے اور ملکی و عالمی سطح پر تمام ممکنہ اور میسر وسائل استعمال کیے جانے کے باوجود نہ تو نقصانات کا پورے طور پر تخمینہ لگایا جا سکا ہے، نہ ہی تمام متاثرہ علاقوں تک رسائی ممکن ہو سکی ہے۔ دنیاکے کئی ممالک بالخصوص مسلم ممالک اور سب سے زیادہ ترکی نے اس سانحے کے دوران پاکستان کی بھرپور امداد کی۔ مظفرآباد کو دوبارہ تعمیر کرنے میں ترکی نے جو کردار ادا کیا، اس پر وہ سب سرخ رنگ کی تعمیرات گواہ ہیں، جنہوں نے مظفرآباد کے شہر کو رونق بخشی ہے۔
دنیا میں ہر قوم سانحات اور حادثات کا شکار ہوتی ہے، مگر ان حوادث اور المیوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہوئے بطور مسلمان ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنے رب سے لو لگا ئیں، عذاب، مصیبتوں اور آزمائشوں سے پناہ مانگیں، لیکن ہمارا حال بھی شاید پہلی امتوں ہی کی طرح ہو چکاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے، ہمیں اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔ جو لوگ اس زلزلے میں جاں بحق ہوئے ہیں ان کی مغفرت فرمائے اور ورثا کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
(بشکریہ رونامہ 92 نیوز)