اگر وہ بھی نام وَری کی دوڑ میں لگ جاتے، تو شاید 165 کتب تصنیف نہ کر پاتے، تعزیتی تقریب سے یونس حسنی، معین عقیل، جعفراحمد اور دیگر کا خطاب
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری جیسے محققین کے کام کو سراہنے اور ان کی تحقیقی روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل میں منعقدہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی تعزیتی تقریب میں مختلف مقررین نے کیا۔ تقریب کی صدارت ممتاز محقق ڈاکٹر یونس حسنی نے کی، انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ممتاز محقق اور مورخ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری اتنی تیزی سے تحقیقی کام انجام دیتے تھے کہ اتنی رفتار سے ہم پڑھ بھی نہیں پاتے تھے، مولوی ذکااللہ کے بعد شاید وہ .دوسری شخصیت ہیں، جس کی تصانیف کی تعداد اتنی زیادہ ہے
’پاکستان چوک‘ میں قائم ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے کتب خانے کے منتظم حافظ تنویر نے کہا اگر شاہ جہاں پوری صاحب بھی نام وَری کے چکر میں پڑ جاتے، تو شاید 165 کتب کی تصنیف وتالیف نہیں کر سکتے تھے۔ اس موقع پر مفتی محمود اکادمی کے ڈائریکٹر محمد فاروق قریشی، ڈاکٹر ابو سلمان کی صاحب زادی توصیف ابو سلمان اور نواسی طیبہ قدسیہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب میں خیر مقدمی کلمات کا اظہار کرتے ہوئے آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اہل قلم اور محققین سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود ’کراچی آرٹس کونسل‘ نے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے بلند مقام ومرتبے کو یاد رکھ کر اپنی دیرینہ روایت برقرار رکھی ہے۔
ماہر لسانیات ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہا کہ اس تقریب میں مجھے ایسی نئی باتیں سننے کو ملیں، جو ڈاکٹر صاحب سے 50 سالہ تعلق کے باوجود میرے علم میں نہ تھیں، آج ضروری ہے کہ ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے غیر مطبوعہ کام کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ سابق ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا ہمارے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ ہمارے درمیان شاہ جہاں پوری جیسا دانش وَر موجود رہا۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے ہندوستان کی آزادی اور مختلف تحریکوں کے حوالے سے جو کام کیا آج اس پر بات نہیں کی جاتی، ضرورت اس امر کی ہے انگریز سامراج سے آزادی میں لڑنے والے دیگر اکابرین کی قربانیوں اور جدوجہد کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔