مدیحہ جنید
ہم نے جہیز کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھتی ہوئی سنی ہیں، لیکن فرسودہ روایات نے اب بھی انسان کو اپنی قید میں جکڑ رکھا ہے۔ جہیز ایک لعنت ہے یہ بات کہتا تو ہر کوئی ہے پر ہمارے معاشرے میں ایک لڑکی کو بیاہ کر ساتھ لے جانے کے لیے مہنگی سے مہنگی چیزیں دینا تو جیسے لازم قرار دے دیا گیا ہے۔
اس کے بغیرتو جیسے عورت کی کوئی عزت ہی نہیں، لڑکی والوں سے اس طرح جہیز کی امید کی جاتی ہے کہ جیسے ساری زندگی ان کو اپنے بیٹے کے بڑے ہونے پر شادی کرکے اس کی بیوی سے سارا ساز وسامان منگوا کر اپنی خواہشات پوری کرنا تھیں۔
دوسری طرف موجودہ دور میں شادی کو بہت ہی مشکل بنا دیا گیا ہے دین اسلام کہتا ہے کہ جو عورت تمھیں پسند ہو اس سے نکاح کرلو، لیکن آج کل نکاح کو لوگوں نے مشکل ترین کاموں میں شامل کردیا ہے، جس کی سب سے بڑی رکاوٹ جہیز ہی ہے ایک لڑکی کا باپ اپنی ساری زندگی صرف یہی سوچ سوچ کر محنت کرتا ہے کہ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اکٹھا کرنا ہے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکی کی عزت اس کے ساتھ آنے والے سامان کو دیکھ کر کی جاتی ہے۔ جتنا زیادہ سامان ہوگا، اس کے ساتھ اتنا ہی بہتر سلوک ہونے کی امید کی جاتی ہے، ہم اور ہمارا معاشرہ بہت ہی بے حس ہوچکا ہے، اگر کوئی ایسی بات جو اسلام میں ہو اور ہمارے مفاد میں ہو تو اس پر ہم لازمی طورپر عمل کرتے ہیں، لیکن جہیز کے نام پر کسی کو دین یاد نہیں آتا۔
ہمارے دین میں جہیز کی کوئی حیثیت نہیں اسلام کہتا ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق دو اور کسی پر کوئی بوجھ نہ ڈالو، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکی کی شادی ماں باپ کے لیے خوشی کے بجائے بوجھ بنا دی گئی ہے ۔ ہم اکیسوی صدی میں رہنے کے باوجود اپنی دکیا نوسی سوچ سے اب تک باہر نہیں آئے ۔ خدارا شادی کو مشکل نابنائیں نکاح کو عام کریں اور تمام فرسودہ روایات کو ترک کریں۔