مودی کا خوف عیاں: 22 سالہ دشا کو وانی اور قصاب سے تشبیہہ دے دی؟

نئی دہلی: بھارت سرکار آواز حق کو دبانے میں ہی عافیت سمجھتی ہے، اُسے اپنے ہی ملک کی 22 سالہ لڑکی سے کیا خطرہ ہے؟
پاکستان کی حکمراں جماعت تحریک انصاف نے اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے بھارت کی برسراقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اپنے ملک میں بھی مخالف آوازوں کو دبانے پر یقین رکھتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں۔

اس ٹویٹ میں دِشا روی کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف نے ان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دشا روی کون ہیں اور انہیں کن الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا اور کیوں پوری دنیا سے ان کے حق میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔
انڈیا کی ایک عدالت نے پیر کو 22 سالہ ماحولیاتی کارکن دِشا روی کو پانچ روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دینے کا فیصلہ دیا ہے۔ انڈیا میں تین ماہ سے جاری کسانوں کی تحریک کے لیے انہوں نے مبینہ طور پر ایک ’ٹول کٹ‘ تیار کیا تھا جسے مودی حکومت ’ملک مخالف دستاویز‘ قرار دے رہی ہے۔
دہلی پولیس نے جب گذشتہ روز دِشا روی کو گرفتار کیا تو سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا اور ان کی گرفتاری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پیر کو سوشل میڈیا پر جو چند ٹاپ ہیش ٹیگز ٹرینڈ کررہے ہیں وہ بظاہر دِشا روی سے تعلق نہیں رکھتے لیکن وہ سب ان سے منسلک ہیں۔ ٹاپ ٹرینڈز میں ’انڈیا بینگ سائلنسڈ‘، ’اجمل قصاب‘، ’برہان وانی‘، ’ایٹ 21‘، ’کلائمیٹ ایکٹوسٹ‘، ’ٹول کٹ‘ وغیرہ شامل ہیں۔
دراصل بی جے پی کے سینئر رہنما پی سی موہن نے دِشا روی کا موازنہ اجمل قصاب اور وانی سے کیا ہے۔
اپنی ٹویٹ کے ساتھ انہوں نے ’دشا روی‘ کے ہیش ٹیگ کا استعمال بھی کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دشا روی کی تصویر بھی پوسٹ کی ہے۔
دہلی کے وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے دشا روی کی گرفتاری کی مذمت کی اور لکھا ہے کہ ’21 سالہ دشا روی کی گرفتاری جمہوریت پر کیا جانے والا بے نظیر حملہ ہے۔ کسانوں کی حمایت جرم نہیں ہے۔’

اسی طرح ششی تھرور نے ڈیلی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’برطانیہ کے ڈیلی ٹیلی گراف نے کہا ہے کہ دشا روی کی گرفتاری انڈیا میں آزادی رائے اور سیاسی مخالفت پر قدغن کی تازہ مثال ہے کیونکہ یہ کسان تحریک اور عوام کے مظاہرے کا گلا دبانے کے لیے ہے۔ کیا بھارتی حکومت کو یہ احساس نہیں کہ وہ اپنی ہی عالمی شناخت کو کس قدر نقصان پہنچا رہی ہے۔‘

دشا کو پولیس تحویل میں بھیجے جانے پر بہت سارے قانون کے ماہرین سوالات اٹھا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق متحدہ کسان مورچہ نے ماحولیاتی کارکن دشا روی کی گرفتاری کے لیے دہلی پولیس پر تنقید کی ہے اور ان کی جلد رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دشا اے روی بنگلور کی رہائشی ہیں اور ان کے مطابق ان کے دادا اور پردادا کسان تھے۔ وہ کالج کے زمانے سے ہی ماحولیات سے آگاہی کے لیے مہم چلاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے متعلق سرگرمیوں میں شامل رہی ہیں۔

Disha Ravifarmers protestIndiaModi govt