مرغی اور قید کا نشہ

تحریر: ڈاکٹر صغیر احمد صغیر

 

جانوروں کی مختلف انواع کے طور اطوار کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مرغی کے آبا و اجداد انتہائی لالچی تھے جنہوں نے درختوں پر  گھونسلے چھوڑ کر انسانوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ اب بھی مرغیوں کی ایک قسم ہے جو جنگلوں اور باغوں میں رہنا پسند کرتی ہے۔

جنوبی پنجاب اور سندھ کے وسطی علاقوں میں آم کے باغات میں یی مرغیاں پیڑوں پر آزادانہ بیٹھ کر کُہہ کُہہ کُہ کی دھنوں میں گاتی ہیں۔ ایک یہ کاہل مرغیاں Gallus domesticus ہیں جنہوں نے قید کو پسند کر لیا۔ سچ پوچھیں تو قید بھی ایک نشہ ہے، جس کو لگ جائے اس کے دماغ سے نکلتا نہیں۔ برصغیر کے لوگوں کے دلوں میں نشہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہؤا ہے، جو شاید اشوکا کے دور سے شروع ہؤا اور آج تک چلا آ رہا ہے۔ بندر، ہاتھی، سانپ، سورج، چاند، درخت، حتیٰ کہ جنسی اعضا تک کی پوجا کر چھوڑی۔ ڈی این اے پر تحقیق سے ثابت ہؤا ہے کہ ان لالچی مرغیوں کو بھی یہی قید کا نشہ آج سے 80000 سال پہلے لگ گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قید پسندی dimestication دریائے سندھ اور گنگا، جمنا کے کنارے عمل میں آئی، البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ برما (موجودہ Myanmar) اور سیام (موجودہ تھائی لینڈ) کی سرزمین پر پر واقع ہؤا اور یہ مرغیاں گھریلو کہلانے لگیں۔ گھریلو مرغیاں دو قسم کی ہوتی ہیں: دیسی اور ولائتی۔ ولائتی مرغیوں کی مزید دو اقسام ہوتی ہیں: اول قسم وہ ہے جو انڈے دیتے دیتے بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن انڈوں پر بیٹھ کر بچے نکالنے کی تمیز نہیں ہوتی۔ شاید دل ہی دل میں انہوں نے فیصلہ کر لیا ہو کہ "میرا جسم میری مرضی،” اس لیے آپس میں کہتی ہوں، "مجھے بچے وچے  پیدا کرنے کا کوئی شوق نہیں۔”       ولائتی مرغیوں کی دوسری قسم وہ ہے جن کا گوشت آج کل بہت شوق سے کھایا  جاتا ہے۔ یہ انتہائی "شریف النفس” سمجھی جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان میں "نفس” والی حس ہی نہیں ہوتی۔ ان کو جہاں بٹھا دیں وہیں بیٹھی رہیں گی۔ ان کے ڈربے میں کسی قسم کوئی چھیڑ چھاڑ کوئی رومانس وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ ان کے نیچے سے ہاتھ کا سہارا دے کر اٹھائیں۔ ہلکی سی شریفانہ آواز نکالیں گی، "کک.. کک… کک۔” (تجربہ کر کے دیکھ لیں یوں لگتا ہے جیسے کہہ رہی ہوں: یار، تنگ نہ کریں نا مجھےےےے،  ہائے اللہ کیوں چھیڑتے ہیں). بعض تو ایسی ماہلی ہوتی ہیں کہ اتنی ہلکی آواز میں بھی احتجاج نہیں کرتیں۔ دیسی مرغیوں کی بھی کئی اقسام ہیں جیسے اصیل، ٹرڑی، مصری، گنوئی (Ga Noi)، شامو (Shamo)، وناراجہ وغیرہ۔ برصغیر میں اصیل مرغوں کی لڑائی (دنگل) کروائے جاتے ہیں۔ ان لڑائیوں پر بڑا بڑا جؤا لگایا جاتا ہے۔ دیسی قسم کی مرغیاں بہت چالاک ہوتی ہیں۔ جب ان کا rut season آتا ہے تو انتہائی رومانی اندازہ میں آوازیں نکالتی ہیں، "کہاااااں۔۔۔ کہااااااں۔۔۔ کہاں کہااااااں۔۔۔ کہاااااں۔۔۔” سب سے طاقتور مرغا (ہیرو) دم کو اوپر کر کے آتا ہے اور حاکمانہ انداز میں بولتا ہے، "کیا ہؤا، کیا ہؤا؟ جیسے ہی ہیرو قریب آتا ہے وہ دوڑ لگا دیتی ہے۔ یہ دوڑ اور لکن چھپائی قابل دید ہوتی ہے۔ حالانکہ مرغا اس سے پہلے کافی مرتبہ اس پر اپنی خوراک "خرچ” کر چکا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مرغا باقاعدہ بڑے نوالوں کو چھوٹے چھوٹے کر کے اپنی محبوبہ کو پیش کرتا پایا جاتا ہے۔ محققین حیوانیات ان لاڈ اٹھانے کے عمل کو courtship کا نام دیتے ہیں۔ آخرکار جنسی عمل مکمل ہوتا ہے اور "محترمہ” اپنے پَر جھاڑتی ہے۔ یہ عمل کئی دن تک دیکھا جاتا ہے حتیٰ کہ یہ دیسی مرغی انڈوں پر بیٹھ جاتی ہے، جسے پاڑا، آرا یا incubation کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کا دورانیہ اکیس دن تک ہوتا ہے۔ اکیسویں دن سے چوزے انڈے کو توڑ کر باہر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک بار جتنے چوزے نکلتے ہیں ان سب کے گروہ کو ایک پُور یا clutch کا نام دیا جاتا ہے۔ بچے نکل آنے کے بعد ان کے ابا جان جو کبھی اپنے منہ سے نکال نکال کے دانے کھلایا کرتے تھے، انہیں بھلا دیا جاتا ہے۔ اور تو اور، ان چوزوں کے ابا جان کو اپنی اولاد کے قریب آنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ بھلے وہی مرغا سو بار کہے، "وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو” مجال ہے کہ بے چارے کو لفٹ کروائی جائے۔ آخرکار مرغا کسی اور محبوبہ کی تلاش میں چل نکلتا ہے۔ خیر چھوڑیں رحمان فارس کا شعر دیکھیں:

عجب اس کی زندگی میں کوئی اور آگیا

تب میں بھی گاؤں چھوڑ کے لاہور آ گیا

اب آپ بتائیں؟ آپ کی مرغی کیسی ہے؟

Hens and the people of subcontinentHow the hens live