انجینئر بخت سید یوسف زئی
(engr.bakht@gmail.com)
(بریڈفورڈ، انگلینڈ)
جاپان میں آنے والا حالیہ زلزلہ نہ صرف ایک قدرتی سانحہ ثابت ہوا بلکہ اس نے دنیا بھر کے انسانوں کو یہ احساس بھی دلایا کہ زمین کی طاقت اور اس کے اندر چھپی ہوئی حرکتیں کس قدر اچانک انسان کو بے بس کرسکتی ہیں۔ ریکٹر اسکیل پر 7.6 شدت کا یہ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ بڑے بڑے شہروں کی مضبوط ترین عمارتیں بھی لرزتی رہیں اور لوگوں میں بے چینی کی لہر پھیل گئی۔ زلزلے کے طویل جھٹکوں نے ایک لمحے میں روزمرہ زندگی کا تمام معمول درہم برہم کردیا اور شہریوں کی بڑی تعداد کھلی جگہوں کی جانب بھاگتی ہوئی نظر آئی۔
زلزلے کے فوراً بعد سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیجز نے اس حقیقت کو مزید واضح کردیا کہ اس سانحے نے کس قدر شدت کے ساتھ مختلف علاقوں کو متاثر کیا۔ فوٹیجز میں دُکانوں کے اندر سامان کا فرش پر گرجانا، دفاتر میں فائلوں اور فرنیچر کا بکھر جانا، بازاروں میں سائن بورڈز کا جھٹکوں سے ہلنا اور پارکنگ ایریاز میں کھڑی گاڑیوں کا اپنی جگہ سے ہل جانا سب دکھائی دیتا ہے۔ یہ مناظر نہ صرف خوف کی علامت تھے، بلکہ زلزلے کی غیر معمولی شدت کی کھلی گواہی بھی تھے۔
حکومتی اداروں نے زلزلے کے چند ہی لمحوں بعد ساحلی علاقوں کے لیے سونامی وارننگ جاری کردی، جس سے عوام میں مزید خوف پیدا ہوا۔ الارم بجائے گئے، میگا فون کے ذریعے اعلانات کیے گئے اور ساحلی آبادی کو فوری بلند مقامات کی طرف جانے کی ہدایات دی گئیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے گھروں سے باہر نکل آئی اور سڑکوں پر ہنگامی صورت حال کا سماں دکھائی دیا۔ ہر کوئی اپنے پیاروں کی سلامتی کے لیے بے چین دکھائی دیتا تھا۔
زلزلے کے نتیجے میں متعدد علاقوں میں بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا اور کئی عمارتوں میں نمایاں دراڑیں نمودار ہوئیں۔ کچھ عمارتوں میں نصب سیکیورٹی سسٹمز نے خودکار طریقے سے گیس اور بجلی کی فراہمی بند کردی تاکہ کسی بڑے حادثے کو روکا جاسکے۔ حکام نے انفرا اسٹرکچر کے نقصانات کا مکمل جائزہ لینے کے لیے خصوصی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں روانہ کیں تاکہ نقصان کا صحیح تخمینہ لگایا جا سکے۔
چونکہ جاپان زلزلوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں شمار ہوتا ہے، اس لیے وہاں کے تعمیراتی اصول اور حفاظتی نظام دنیا میں مثالی مانے جاتے ہیں۔ پھر بھی 7.6 شدت کا زلزلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ شہروں کی گلیوں اور سڑکوں پر لوگوں کے چہروں پر خوف کی لکیریں تھیں اور ہر کوئی اس اچانک آنے والی آفت سے بے حد متاثر دکھائی دیتا تھا۔
حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو مشن کا آغاز کیا اور فائر بریگیڈ، میڈیکل اسٹاف اور امدادی ٹیموں کو فوری فعال کردیا۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور اضافی ڈاکٹرز و نرسوں کو طلب کرلیا گیا، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال کا بروقت مقابلہ کیا جاسکے۔ شہریوں کو مشورہ دیا گیا کہ چھوٹی موٹی چوٹوں سے بچنے کے لیے گھروں میں احتیاط برتیں اور غیر ضروری طور پر خطرناک علاقوں کا رُخ نہ کریں۔
دنیا بھر کے ممالک نے جاپان کے لیے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ کئی ممالک نے امدادی ٹیمیں بھیجنے کی پیشکش کی، ایسے مواقع انسانیت کو ایک دوسرے کا سہارا بننے کی یاد دلاتے ہیں اور جاپان کے عوام کے لیے دنیا کے بے شمار لوگوں نے نیک خواہشات پیش کیں۔
زلزلے نے ٹرانسپورٹ کے نظام کو بھی کافی متاثر کیا ہے۔ کئی ایئرپورٹس پر پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں، کچھ کو منسوخ کرنا پڑا اور ٹرینوں کی کئی سروسز عارضی طور پر بند کردی گئیں۔ سڑکوں میں پڑنے والی دراڑیں نہ صرف گاڑیوں کی آمدورفت میں رکاوٹ بنیں بلکہ شہریوں کو اپنی منزل تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
کئی خاندانوں نے خوف اور بے یقینی کے باعث اپنی راتیں پارکوں، گاڑیوں اور خالی میدانوں میں گزاریں۔ بچے ڈرے ہوئے تھے، بڑوں کے چہروں پر تشویش کے آثار نمایاں تھے اور بوڑھے افراد اس اچانک سانحے سے ذہنی طور پر بہت زیادہ متاثر تھے۔ حکومت نے نفسیاتی معاونت کے لیے خصوصی ٹیمیں متحرک کیں، تاکہ عوام کو ذہنی دباؤ سے نکالا جاسکے۔
اس موقع پر دنیا بھر کے لوگوں نے ماضی میں آنے والے تباہ کُن زلزلوں کو بھی شدت سے یاد کیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے افراد کے ذہنوں میں پرانی تصاویر اور الم ناک مناظر تازہ ہوگئے، جب چند لمحوں کے اندر پوری بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں اور انسان اپنی ہی تعمیرات کے نیچے دب کر بے بسی کی تصویر بن کر رہ گیا تھا۔ قدرتی آفات کی یہ یادیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی، مضبوط انفرا اسٹرکچر اور جدید ترین حفاظتی نظام بھی زمین کی طاقت کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں اور انسان کی پوری محنت ایک جھٹکے میں ختم ہوسکتی ہے۔
خصوصاً پاکستان میں 2005 کا وہ ہولناک زلزلہ لوگوں کے دلوں میں آج بھی تازہ ہے، جس نے ہزاروں خاندانوں کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ شمالی علاقہ جات سے لے کر کشمیر تک تباہی کی ایسی دردناک داستانیں رقم ہوئیں، جنہیں وقت کا بہاؤ بھی مکمل طور پر مٹا نہیں سکا۔ اسکولوں کی عمارتیں گرگئیں، معصوم بچے شہید ہوئے، گھرانے بکھرگئے اور پوری قوم ایک ایسی آزمائش میں مبتلا ہوگئی، جس نے ہر پاکستانی کو اندر تک ہلاکر رکھ دیا تھا۔ آج بھی جب اس تباہ کن حادثے کا ذکر ہوتا ہے تو لوگوں کے چہرے افسردہ ہوجاتے ہیں اور وہ لمحات دلوں پر پھر سے بوجھ بن کر اتر آتے ہیں۔
جاپان میں آنے والا حالیہ زلزلہ اسی حقیقت کی ایک تازہ یاد دہانی ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی مضبوط عمارتیں بنالے، سائنس میں کتنی ہی ترقی کرلے یا بڑے سے بڑا حفاظتی نظام تیار کرلے، لیکن قدرتی آفات کے سامنے اس کی حیثیت ہمیشہ محدود ہی رہے گی۔ یہ سانحہ نہ صرف جاپان، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ انسان کو اپنی طاقت پر مغرور نہیں ہونا چاہیے، بلکہ قدرت کے سامنے عاجزی، انکساری اور احتیاط کو ہمیشہ اپنے دل و دماغ کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہ حادثات ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ زندگی کتنی ناپائیدار ہے اور انسان کے لیے ضروری ہے کہ نعمتوں کی قدر کرے، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور ہر لمحے کو ذمے داری کے ساتھ گزارے۔
ماہرین اس سانحے کے بعد اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حفاظتی نظام کو مزید مضبوط بنایا جائے اور زلزلوں سے متعلق عوامی آگاہی پروگراموں کو مزید وسیع کیا جائے۔ کچھ شہریوں نے بتایا کہ انہیں ابتدائی الرٹ بروقت ملا جس سے وہ محفوظ مقامات تک پہنچنے میں کامیاب رہے جب کہ کچھ علاقوں میں الرٹ سسٹم دیر سے فعال ہوا، جس پر وہ تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔
غیر ملکیوں نے بھی اپنی ہولناک تجربات سوشل میڈیا پر شیئر کیے ہیں۔ کچھ نے بتایا کہ زمین کی حرکت اتنی شدید محسوس ہوئی کہ انہیں چند لمحوں کے لیے ایسا لگا جیسے ان کے قدموں تلے زمین پانی کی طرح بہہ رہی ہو۔ اس کیفیت نے ہر شخص کو ذہنی طور پر پریشان کردیا اور زلزلے کے بعد لوگ گھنٹوں تک خوف کے اثر سے باہر نہ آ سکے۔
جاپانی حکومت عالمی ماہرین کے ساتھ مل کر زلزلے کی مکمل تحقیقات کررہی ہے۔ ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت، سونامی کے خطرے اور مستقبل کے ریکٹر اسکیل اندازوں پر رپورٹیں تیار کی جارہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج مستقبل میں اہم کردار ادا کریں گے اور بہتر حفاظتی اقدامات ترتیب دینے میں مدد دیں گے۔
یہ زلزلہ ایک بار پھر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ دنیا میں کوئی خطہ قدرتی آفات سے مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ انسان خواہ جتنی بھی ترقی کرلے، قدرت کے سامنے اس کی حیثیت محدود رہتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنے خالق کی عظمت، اپنی کمزوری اور زندگی کی ناپائیداری کا حقیقی احساس کرتا ہے۔