زندگی اور محرومیاں

محمد شان

 

جب کبھی مجھے میری محرومیاں یہ احساس دلاتی کہ تم کتنے ناکام آدمی ہو، وقت سے کتنا پیچھے ہو۔۔۔ تمہارا تو کوئی مستقبل ہی نہیں۔۔۔تم انہی حالات میں۔۔۔ایسے ہی روتے ہوئے مرو گے۔

روز کوئی ناکامی تمہارے دروازے پر دستک دیتی ہے۔۔۔تو میں ماضی میں چلا جاتا ہوں۔۔۔بہت پیچھے بہت پہلے۔۔۔جب میری سوچ ایک گاوں کے کچے گھر تک محدود تھی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس سے باہر بھی کوئی دنیا ہے تب بھی مجھے یہی لگتا تھا وقت نہیں بدلے گا۔ میں یہی رلتا رلتا مر جاوں گا۔۔۔کہیں دل میں بس ایک امید ہوتی جو ساتھ چلتی رہتی ۔۔۔مگر وقت بدلا حالات بدلے۔ پھر میں شہر منتقل ہوا۔

اب میری سوچ کا زاویہ بڑھا۔۔۔سب نیا نیا تھا۔۔۔کچھ عرصہ یہ سب مجھے بہت اچھا لگا، کیونکہ میں نے ترقی کی تھی، مگر پھر جب میں اردگرد دنیا کی برق رفتاری دیکھتا تو ۔۔۔اندر اندر کڑھتا کہ میں تو بہت پیچھے ہوں۔ میں تو آگے نہیں بڑھ سکتا۔ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں ۔۔۔پھر مجھے لگتا اب یہی سب میرا مستقبل ہے۔۔۔میرا کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔مگر وقت پھر بدلا۔۔۔اور میری سوچ بھی بدلی۔۔۔اب میں اور بڑا سوچنے لگا۔۔۔شہر سے نکل کر ملک کی بات کرنے لگا۔۔۔ بڑے لوگوں میں بیٹھنے لگا۔۔۔بڑے خواب دیکھنے لگا ۔۔۔ مگر وہاں مجھے لگتا میں تو اب بھی بہت پیچھے ہوں۔۔۔ بلکے کہیں نہیں ہوں۔۔۔میرا کچھ نہیں بننا۔

مگر اس سب عرصے میں میرا دل میری راہنمائی کرتا رہا وہ مجھے یاد دلاتا رہا۔ یار ذرا سوچو تو سہی، تھوڑا غور تو کرو، تم کیا تھے۔ سوچو کہاں سے تم نے سفر شروع کیا اور آج کہاں ہو۔۔۔کیا تمہیں کہیں کوئی تبدلی نہیں نظر آتی؟ اگر آتی ہے تو پھر سوچو یہ سب کیسے ہوا۔ کس نے کیا۔ تمہاری اپنی تو اتنی اوقات نہ تھی۔ تمہیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ بے اختیار میری آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتیں اور دل سجدے میں۔۔۔اور پھر میں فکر کے اس غبار کو پرے دھکیل ہوئے سوچتا جو ذات میری پیدائش سے لے کر اب تک مجھے سنبھالتی آئی ہے۔۔۔کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ میرا مستقبل بھی سنبھال لے۔