بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی دستِ راست اور ان کی چھوٹی بہن کو مادرِ ملت کے نام سے جانا جانا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کا شمار تحریک آزادی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان سے محبت اور عقیدت کا بڑا سبب یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پرجوش حامی تھیں، لیکن فاطمہ جناح کی اپنی شخصیت بھی انتہائی اہم ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ 1901 اپنے میں والد کی وفات کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی یعنی قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ساتھ رہنے لگیں۔ بھائی کی حوصلہ افزائی پر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج میں تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں ہاسٹل میں رہنا پڑا۔ 1923 میں فاطمہ جناح نے کلکتہ میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا۔ قائدِ اعظم کی اہلیہ رتی جناح کے انتقال کے بعد وہ کلینک ختم کرکے اپنے بھائی کے ساتھ آکر رہنے لگیں۔ اس دوران انہوں نے قائدِ اعظم کے گھر اور کم سن بھتیجی کی دیکھ بھال بھی کی۔۔ میدانِ سیاست میں انہوں نے قائد اعظم کے شانہ بشانہ کام کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ بنی تو محترمہ فاطمہ جناح، بمبئی صوبائی ورکنگ کمیٹی کی رکن بن گئیں اور 1947 تک اس میں کام کرتی رہیں۔ مارچ 1940 میں انہوں نے مسلم لیگ کے قراردادِ لاہور کے جلسے میں بھی شرکت کی۔ انہی کی کوششوں کی بدولت فروری 1941 میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ فاطمہ جناح نے ہی خواتین کی امدادی کمیٹی بنائی جس نے بعد میں آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کی شکل اختیار کرلی۔ اس تنظیم کی بنیاد رعنا لیاقت علی خان نے رکھی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے لئے فاطمہ جناح نے بے پناہ کام کیا۔ بعد ازاں وہ میدانِ سیاست میں بھی واپس آئیں اور صدرِ پاکستان کے لیے انتخابات میں حصہ لیا۔
1965 میں انہوں نے صدرِ پاکستان کے عہدے کے لئے سابق صدر جنرل ایوب خان کا مقابلہ کیا۔ ان کے شروع کے جلسوں میں تقریباً ڈھائی لاکھ لوگ ڈھاکہ میں اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آ پہنچے اور چٹاگانگ تک لاکھوں لوگ قطاروں میں اُن کے استقبال کو کھڑے تھے۔ اُن کی ٹرین جس کا نام آزادی سپیشل ٹرین تھا۔ 22 گھنٹے تاخیر سے پہنچی کیونکہ جا بجا لوگ گاڑی کی ایمرجنسی بریک کھینچ دیتے اور اُن کی منتیں کرنے لگتے کہ وہ اُن سے بات کریں۔ وہ واقعی مادرِ ملت تھیں۔
سماجی ترقی کے میدان میں بھی فاطمہ جناح کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر خواتین کی بیداری اور ملکی امور میں ان کی شمولیت کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ قائدِ اعظم اور فاطمہ جناح جیسے بہن بھائی کی محبت اور رفاقت کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ قائداعظم انہیں ہمیشہ اپنے ہمراہ رکھتے تھے۔ فاطمہ تحریک پاکستان میں انتہائی سرگرم رہیں اور قائداعظم کا دست و بازو ثابت ہوئیں۔ مسلم لیگ کے پرچم تلے خواتین کے اجتماعات بھی ہوا کرتے تھے۔ جن میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شریک ہوتیں اور خواتین کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کی تلقین کرتیں۔ انہوں نے مسلمان خواتین کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا اور انہیں منظم اور متحرک کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
محترمہ فاطمہ جناح کا بچپن دیگر لڑکیوں سے مختلف تھا۔ انہیں کھیل کود اور زیورات وغیرہ سے رغبت نہ تھی۔ وہ چاکلیٹ شوق سےکھاتی تھیں، سادہ لباس پہنتیں اور فارغ اوقات میں سائیکل چلایا کرتی تھیں۔ ان کی فہم و فراست قبلِ ذکر تھی۔ وہ قائدِ اعظم کو نہایت دانش مندانہ مشورے دیتیں اور وہ ان کے مشوروں کو نہ صرف سراہتے بلکہ ان پر عمل بھی کرتے۔ قائدِ اعظم 1930ء میں گول میز کانفرس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو فاطمہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ لندن کی تعلیمی اور معاشرتی زندگی دیکھ کر فاطمہ جناح کو احساس ہوا کہ ہندوستانی معاشرہ بہت پسماندہ ہے۔ واپس آ کر انہوں ہندوستانی عوام خصوصاً عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھر پور کوششیں کیں۔ آپ نے مسلم طالبات کی انجمنیں قائم کیں۔ مختلف مقامات پر خواتین کے جلسوں میں خطابات کیے۔ خواتین کو اسلامی تعلیمات کے حصول کے لیے بہت زور دیا۔ اپریل 1943ء میں مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن دہلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا، ”تعلیم ایک اہم ترین ستون اور وہ بنیاد ہے جس پر قوم کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔”
قائدِ اعظم سمجھتے تھے کہ تحریک آزادی میں خواتین کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان کی منظوری کے موقع پر فاطمہ جناح قائدِ اعظم کے ساتھ تھیں۔ تحریکِ پاکستان کی کامیابی میں محترمہ فاطمہ جناح کے کردار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی ایام میں مہاجرین کی امداد کے لیے فاطمہ جناح نے بے شمار جلسے کیے اور نوزائیدہ مملکت کے لیے چندہ جمع کیا۔ 2 نومبر 1947ء کو فاطمہ جناح نے اپنے نشری خاب میں کہا، ”ہم اپنی مملکت کی تاریخ کے ایک نہایت اہم دور سے گزر رہے ہیں۔ آئیے عہد کریں کہ ہم اس مملکت کی بقاء کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا نہ رکھیں گے۔”
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنے عظیم بھائی کی وفات کے بعد 19 برس تک زندہ رہیں۔ انہوں نے قوم پر واضح کیا کہ قائداعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ وہ خواتین کو تعلیم یافتہ بنا کر انہیں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے جمہوری اصولوں کی نہ صرف خود پاسداری کی بلکہ دوسروں کو بھی یہ روش اپنانے کی تلقین کی۔
8 جولائی 1967ءکی شام مادرِ ملت ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنے گھر ”قصرِ فاطمہ” کی پہلی منزل پر آرام کے لیے چلی گئیں۔ اگلی صبح جب کافی دیر تک دروازہ نہ کھلا تو ملازم نے شور مچایا۔ جب دروازہ کھولا گیا تو آپ اپنے بستر پر لیٹی تھیں۔ ڈاکٹرز نے معائنہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ رات کو حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی ہے۔ تقریباً چار لاکھ افراد نے ان کے جنازے میں شرکت کی اور آپ کو مزارِ قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔