آج اردو کے نامور ادیب اور دانش ور اشفاق احمد کی 17 برسی منائی جارہی ہے۔ اشفاق احمد نے نہ صرف اردو افسانوں کو تازگی عطا کی بلکہ پاکستان ٹیلی وژن کے لے بے شمار ڈرامے بھی لکھے۔ انہوں نے کئی دہائیوں قبل ریڈیو پاکستان سے تلقین شاہ کا کردار پیش کرکے خاصی شہرت پائی تھی۔ پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کیا جانے والا ان کا پروگرام زاویہ آج بھی لوگ شوق سے دیکھتے ہیں۔
اشفاق احمد 22 اگست 1925 کو متحدہ ہندستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک گاؤں خان پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم فیروز پور میں حاصل کی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومہ کیا اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔
اشفاق احمد نے اپنی تحریروں سے اردو ادب کو نئے ذائقوں سے آشنا کیا۔ وہ بہت عمدہ افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور صدا کار تھے۔ ان کی باتوں میں صوفیانہ سوچ اور روحانی تجربات سے حاصل کردہ دانائی ایک خاص ڈھب سے شامل ہوتی تھی۔ ان کی دانش ورانہ گفتگو اور لہجے کی تاثیر نے ایک جہان کو اپنا گرویدہ بنایا۔
انہوں نے اپنی کہانیوں اور ڈراموں کے کرداروں کو حقیقی طور پیش کیا۔ وہ ایک ایسے کہانی کار تھے جنہوں نے اپنی کہانیوں سے انسانی اقدار اور انسانی رویوں کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ بظاہر انتہائی سادہ گفتگو کرتے تھے مگر ان کے جملوں میں ایک نکھری ہوئی تہذیب کا پورا منظر نامہ سننے والے کے سامنے آجاتا تھا۔ان کو شریکِ حیات بھی آپا بانو قدسیہ جیسی ملیں جو خود بھی ایک دانشور تھیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بانو قدسیہ نے بھی ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ جب بانو نے پہلے سال پہلی پوزیشن حاصل کی تو اشفاق احمد کے لیے مقابلے کا ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوا۔ انھوں نے بھی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالِ آخر میں اشفاق احمد اوّل نمبر پر رہے، جبکہ بانو قدسیہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ یہ وہ دور تھا جب اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں اردو کی کلاسیں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کے دوران میں بانو قدسیہ ان کی ہم جماعت تھیں۔ بانو قدسیہ کا تعلق فیروز پور مشرقی پنجاب ( بھارت) سے تھا۔ قیام پاکستان سے ہجرت کرکے لاہور میں آکر قیام کیا۔ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اتنی ہو گئی کہ شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اُن کے والد ایک غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے حق میں نہ تھے۔
اگر اشفاق احمد کے بارے میں لکھا جائے تو اس پر پی ایچ ڈی کرنی پڑ جائے مگر شاید اس میں تشنگی کا پہلو رہ جائے۔ اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے۔ اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی، یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی۔ میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا۔
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے، میں، میرا بیٹا اور اس کی والدہ۔ تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا، مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ، اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں، میرا بیٹا اور اسکی والدہ۔ بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیر وزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اس کو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولاد کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طور پر جب اس کی اولاد کسی مشکل میں ہو۔ اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اس کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی۔
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ایک فوتگی کے موقع پر میں نیم غنودگی کی حالت میں سویا ہوا تھا اور کچھ جاگا ہوا نیم دراز سا پڑا تھا۔ وہاں بچے بھی تھے جو آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک بچے کی بات نے مجھے چونکا دیا، وہ کہہ رہا تھا، "کوئی فوت ہوجائے تو بڑا مزہ آتا ہے۔ ہم سب اکٹھے ہوجاتے ہیں اور سارے رشتہ دار ملتے ہیں۔” پھر ایک بچے نے کہا، "اب پتہ نہیں کون فوت ہوگا؟” نانا ناصرالدین بوڑھے ہوچکے ہیں، ان کی سفید داڑھی ہے شاید اب وہ فوت ہونگے۔ اس پر جھگڑا کھڑا ہوگیا اور وہ آپس میں بحث کرنے لگے۔ کچھ بچوں کا موقف تھا کہ پھوپھی زہرا کافی بوڑھی ہوگئی ہیں وہ جب فوت ہونگی تو ہم ان شاءاللہ فیصل آباد جائنگے اور وہاں ملیں گے اور خوب کھیلیں گے۔” اس گفتگو میں میرا نام بھی آیا۔ میری بھانجی کی چھوٹی بیٹی جو بہت چھوٹی ہے اس نے کہا، "نانا اشفاق بھی بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔” شاید میں چونکا بھی تھا اس کی بات سن کر۔ جو میرے حمایتی بچے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جب نانا اشفاق فوت ہونگے تو بہت رونق لگے گی کیونکہ یہ بڑے مشہور ہیں۔ جب بچوں کا جھگڑا کچھ بڑھ گیا اور ان میں تلخی بڑھنے لگی تو ایک بچے نے کہا، ""جب نانا اشفاق فوت ہونگے تو گورنر آئیں گے۔” اس پرایک بچے نے کہا، "نہیں، گورنر نہیں آئیں گے، بلکہ وہ پھولوں کی ایک چادر بھیجیں گے، کیونکہ گورنر بہت مصروف ہوتا ہے۔ تمہارے دادا یا نانا ابو اتنے بھی بڑے آدمی نہیں کہ ان کے فوت ہو جانے پر گورنر آئیں گے۔” وہ بچے بڑے تلخ، سنجیدہ اور گہری سوج بچار کے ساتھ آئندہ ملنے کا پروگرام بنارہے تھے۔ ظاہر ہے بچوں کو تو اپنے دوستوں سے ملنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے ناں!
ہم بڑوں نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ ہم رشتے بھول کر کچھ زیادہ ہی کاروباری ہوگئے ہیں۔ چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں حالانکہ چیزیں ساتھ نہیں دیتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ رشتے طاقتور ہوتے ہیں اور ہم رشتوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ خدا کے لئے کوشش کریں کہ ہم اپنے رشتوں کو جوڑ سکیں ایسی خلیج حائل نہ ہونے دیں کہ ملاقاتیں صرف کسی کے فوت ہو جانے کی مرہون منت ہی رہ جائیں۔ کیا ہم ان بچوں کی طرح اس بات کا انتظار کریں گے کہ کوئی مرے پھر ہم مجبوری کے ساتھ لاٹھی ٹیکتے ہوئے یا چھڑی پکڑے وہاں جائیں۔
جب ہم کہیں جائیں تو یہ فخر دل میں ہونا چاہیئے کہ میں ایک شخص سے ملنے جارہا ہوں مجھے اس سے کوئی دنیاوی غرض نہیں ہے۔ اس کے پاس اس لیے جارہا ہوں کہ وہ مجھے بہت پیارا ہے۔ چاہے ہم اس کام کے لیے کم وقت دیں لیکن دیں ضرور۔
ان کی باتوں میں حکمت پوشیدہ ہوتی تھی اور ہر جملے کے دریا میں ایک حکیمانہ سوچ تیرتی تھی۔ اور بالآخر 7 ستمبر ، 2004ء کو جگر کی رسولی کی وجہ سے اشفاق احمد کا اچانک انتقال ہو گیا۔