کراچی: داعش کے لیے کراچی سے فنڈنگ کا انکشاف ہوا ہے۔
ذرائع سی ٹی ڈی کے مطابق کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے فرانزک رپورٹ کے بعد مقدمہ درج کرلیا۔ عمر بن خالد کو دسمبر 2020 میں طارق روڈ سے حراست میں لیا گیا اور ملزم کے خلاف ثبوت نہ ہونے پر اسے ذاتی مچلکے پر رہا کردیا گیا تھا۔
ملزم عمر بن خالد کے قبضے سے 2 موبائل فونز قبضے میں لے کر فرانزک کے لیے بھیجے گئے تو ڈیجیٹل فرانزک رپورٹ میں ملزم اور اس کے ساتھیوں کے خلاف شواہد مل گئے جس پر ملزم کے ساتھی جنید، ضیا اور اویس کو بھی مقدمے میں نامزد کرلیا گیا۔
ملزمان شام اور پاکستان میں موجود داعش کے دہشت گردوں اور ان کی فیملیز سے رابطے میں تھے اور مختلف ذرائع سے داعش کی فنڈنگ کرتے تھے، اس فنڈنگ کو شام اور ممکنہ طور پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کیا جارہا تھا، عمر کو حراست میں لے لیا گیا اور مقدمے میں نامزد ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
دوسری جانب عمر کی بازیابی کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ داخلہ، ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ، ایس ایس پی سی ٹی ڈی، ایس ایس پی سی آئی اے، ایس ایچ او فیروز آباد و دیگر کو نوٹس جاری کردیے۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو این ای ڈی یونیورسٹی کے طالب علم عمر کی بازیابی کے لیے والدہ طیبہ خالد کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ محمد عمر کو پی ای سی ایچ ایس سے 17 دسمبر کو اٹھایا گیا۔ پولیس موبائل کی فوٹیج کیمروں میں محفوظ ہے۔ عمر کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔
عدالت نے موقف سننے کے بعد محکمہ داخلہ سندھ، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز، ایس ایس پی سی ٹی ڈی، ایس ایس پی سی آئی اے، ایس ایچ او فیروز آباد و دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔