سائفر کیس: شاہ محمود 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے

اسلام آباد: سائفر کیس میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم ملک کی پہلی اسپیشل عدالت نے وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کا 4 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملک میں پہلی خصوصی عدالت قائم کردی گئی ہے جس میں سائفر کیس میں گرفتار وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کو پیش کیا گیا۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کا اضافی چارج انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو سونپا گیا، جج ابوالحسنات نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے کی سماعت کی۔
ملک بھر میں ابھی تک آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی ایک عدالت قائم کی گئی جو اسلام آباد میں ہے، قانون کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی سماعت ان کیمرا ہوگی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ سائفر کیس میں گرفتار وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت میں کچھ دیر بعد پیش کیا گیا۔
اسپیشل عدالت کے جج ابوالحسنات نے غیرمتعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا معاملہ ہے، غیرمتعلقہ افراد باہر چلے جائیں۔
کمرہ عدالت میں وکلا شاہ محمود قریشی کے وکیل شعیب شاہین، انتظار پنجوتھا، گوہر علی اور علی بخاری موجود تھے جب کہ پی ٹی آئی کے جونیئر وکلا کو بھی کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وکیل شعیب شاہین نے سائفر کے معاملے پر ایف آئی اے سے تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی اور بار بار جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے بھی اپنے دلائل میں وائس چیئرمین پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے وکلا علی بخاری اور شعیب شاہین نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا جب کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر خوشنود احمد نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ پڑھ کر سنایا۔
ایف آئی اے کی جانب سے سائفر کیس میں 13 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی تاہم عدالت نے شاہ محمود قریشی کو 4 روز کے لیے ایف آئی اے کے حوالے کرتے ہوئے انہیں 25 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ قومی اسمبلی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظور کیے تھے اور تین روز قبل دونوں ایکٹ صدر پاکستان کی منظوری کے بعد قانون بنے تھے۔
تاہم گزشتہ روز اس وقت ملک میں اچانک کھلبلی مچ گئی جب صدر عارف علوی کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں کہا گیا کہ میں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے، میں ان دونوں بلوں سے اتفاق نہیں کرتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے صدر پاکستان کے اس بیان پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے صدر پاکستان کے بیان کے بعد سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے۔