ڈاکٹر عمیر ہارون
پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران حکومت پاکستان کے کرپٹو کرنسی کی جانب بڑھتے ہوئے اقدامات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ کچھ حلقے اسے سفارتی حکمتِ عملی سمجھتے ہیں، جہاں امریکا کے مخصوص سیاسی طبقات سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کرپٹو کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ اگر حکومت اسے بطور کاروبار سنجیدگی سے لینے لگے تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
کرپٹو بطور سفارتی آلہ:
چلیں مان لیا، اگر صرف واشنگٹن میں اثرورسوخ حاصل کرنا مقصود ہے اور کرپٹو محض ایک سفارتی چال ہے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ "چلو، جیسا ہے، ویسا ہی سہی”۔ لیکن جب کرپٹو کو ایک قومی مالیاتی پالیسی کے جزو کے طور پر اپنانے کی بات آتی ہے تو یہ ایک خطرناک رخ اختیار کرلیتا ہے۔
حکومت جو بھی وسائل اس سمت میں جھونکے گی، وہ عوام کے وسائل ہوں گے— وہی زرِمبادلہ کے ذخائر، بجلی کی سبسڈی یا دیگر ریاستی سہولتیں جو عوام کی فلاح کے لیے مخصوص ہونی چاہئیں۔
سنجیدہ تجاویز یا سادہ لوحی کا مظاہرہ؟
کرپٹو کونسل کے قیام کے بعد سے کئی حیران کن تجاویز منظرِعام پر آئیں۔ ایک صاحب نے تجویز دی کہ پاکستان اپنے کچھ زرِمبادلہ کے ذخائر بٹ کوائن میں لگا دے۔ دلیل؟ بٹ کوائن کی گزشتہ دہائی میں ہونے والی قیمت میں حیرت انگیز اضافہ۔
یہ سوچ چھوٹے درجے کے اسٹاک بروکرز یا جائیداد کے ایجنٹس کی یاد دلاتی ہے جو پُرکشش منافع کا خواب دکھا کر عام شہریوں کو ناقابلِ بھروسہ اثاثوں میں الجھا دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کرپٹو کی قدر میں بے تحاشا اتار چڑھاؤ ہے اور ریاستیں کبھی بھی اپنے ذخائر اتنی بے یقینی چیزوں میں نہیں لگاتیں۔
مائننگ کا معاملہ: سبسڈی کس کے لیے؟
ایک اور تجویز کرپٹو مائننگ سے متعلق آئی— اور کہا گیا کہ حکومت 5-6 سینٹ فی یونٹ پر بجلی فراہم کرے۔ موازنہ کریں: گھریلو صارفین 20 سینٹ اور صنعتیں 14 سینٹ فی یونٹ کے قریب ادا کرتی ہیں۔
تو کیا ملک میں اتنی سستی بجلی موجود ہے کہ اسے پہلے کرپٹو مائنرز کو دیا جائے؟ اگر واقعی ہے، تو پھر یہ سہولت عوام یا صنعت کو کیوں نہیں دی جارہی؟
مزید الجھن اس وقت پیدا ہوئی جب وزارتِ خزانہ نے اچانک اعلان کیا کہ 2000 میگاواٹ بجلی "کرپٹو مائننگ کے لیے مختص” کردی گئی ہے۔ نہ اس اعلان میں بجلی کی قیمت بتائی گئی اور نہ یہ وضاحت کہ پاکستان میں بجلی کی تقسیم میں ایسا کوئی کوٹہ سسٹم موجود ہے۔
کرپٹو ایکسچینج: نسبتاً معقول تجویز
یہ تجویز دی گئی کہ پاکستان میں باقاعدہ کرپٹو ایکسچینج قائم کیا جائے، جیسا کہ کموڈیٹیز ایکسچینج ہوتا ہے۔ اگر اس میں ریاستی وسائل شامل نہ ہوں اور محض ریگولیشن کا نظام بنایا جائے، تو یہ تجویز نسبتاً قابلِ قبول ہے، لیکن اس سے کرپٹو کی بنیادی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔
کرپٹو: افسانہ، حقیقت یا خطرہ؟
یاد رکھیں، کرپٹو ایک افسانوی اثاثہ ہے— ایسا اثاثہ جو صرف ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ اگر کافی لوگ اس "خیال” کو مان لیں، تو یہ چلتا ہے۔ پیسہ اور سونا بھی افسانوی ہیں، لیکن وہ اپنی افادیت کی وجہ سے "لیکویڈ” ہیں— یعنی آپ ان سے چیزیں خرید سکتے ہیں۔
کرپٹو اس درجے پر نہیں آیا۔ یہ محض قیاس آرائی کا ذریعہ ہے اور اکثر اوقات غیر قانونی مقاصد جیسے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور غیر رجسٹرڈ لین دین میں استعمال ہوتا ہے۔
جے پی مورگن کے سی ای او، جیمی ڈائمن کے مطابق: "بٹ کوائن ایک دھوکہ ہے، اور اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں اسے بند کرادیتا۔”
سبق کیا ہے؟
دنیا میں پہلے بھی افسانوی اثاثے مالیاتی نظام کو ہلاچکے ہیں— 2008 کا معاشی بحران اس کی زندہ مثال ہے، جہاں CDOs نامی پیچیدہ مالیاتی مصنوعات نے عالمی مالیاتی نظام کو زمین بوس کردیا تھا۔
اسی طرح کے فریب ہم آج بھی دیکھتے ہیں: جعلی ہاؤسنگ اسکیمیں، زمینوں کی فائلز، اور اب ڈیجیٹل اثاثے جن کی کوئی بنیاد نہیں۔
اگر کوئی فرد اپنے پیسوں سے یہ خطرہ مول لینا چاہے تو شوق سے لے، لیکن ریاست کے پاس ایسی آزادی نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان افسانوی خوابوں کی چمک دمک میں نہ آئے اور عوامی وسائل کو سنبھال کر رکھے۔