واشنگٹن: عوامی مفادات کی دیکھ ریکھ کرنے والی ایک امریکی تنظیم نے کہا ہے کہ2020 میں کورونا وبا میں خریدے گئے لاکھوں کروڑوں کروم بکس، لیپ ٹاپ کے سستے متبادل کے طور پر خریدی گئی تھیں لیکن اب تین برس بعد ان میں ٹوٹ پھوٹ نمایاں ہے جن کی اکثریت ناقابلِ مرمت ہے۔
2020 میں لاک ڈاؤن کی باعث دنیا بھر میں آن لائن تدریس اور کام کی وجہ سے لیپ ٹاپ، کروم بکس اور ٹیبلٹس کی فروخت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا تھا۔ امریکا میں ہی خرچ بچانے کے لیے کئی ملین سستی کروم بک خریدی گئی تھیں۔ اب یہ خبرہے کہ صرف چند سال بعد ہی وہ ناپائیدار نکلیں، ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہیں اور ان کی مرمت بھی محال ہے۔ اس سے ایک جانب تو برقی کچرا پیدا ہورہا ہے تو دوسری جانب تمام کروم بکس کی مرمت کرکے ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کی بچت کی جاسکتی ہے۔
دوسری صورت میں یہ رقم ٹیکس دینے والوں پر بوجھ سے زیادہ کچھ اور نہ ہوگی۔ کروم بک سستی ہونے کے باوجود مرمت کے قابل نہیں ہوتیں۔ پھران میں ونڈوز نہیں ہوتی، دوم انہیں لیپ ٹاپ کے مقابلے میں اپ گریڈ کرنا محال ہوتا ہے۔ اس کے فاضل پرزہ جات بھی مشکل سے ملتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسکرین، جوڑ اور کی بورڈ کو گرنے سے نقصان ہوتا ہے اور اسکول کے بچوں نے بڑے پیمانے پر یہی نقصان کیا ہے۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کروم بک ارزاں ہونے کے باوجود فاضل پرزے بہت ہی مہنگے ہیں مثلاً ایسر کروم بک کا کی بورڈ (امریکا میں) 90 ڈالر میں دستیاب ہے، جس کا اسٹاک بھی ختم ہوچکا ہے۔
اسی بنا پر کروم بکس سے تدریس ایک مشکل اور مہنگا عمل بھی ہے۔ دوسری جانب گوگل کمپنی کی جانب سے اپ ڈیٹ کی عجیب و غریب شرائط سے بھی کروم بکس ناکارہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ اب یہ حال ہے آپریٹنگ سسٹم اپ ڈیٹ نہ ہونے سے انہیں کہیں فروخت کرنا ممکن نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کمپنیاں بہتر کروم بکس تیار کریں اوراس پر فاضل پرزوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ اگر 2020 میں خریدی گئی تین کروڑ کروم بکس کو دوبارہ قابلِ استعمال بنالیا جائے تو ناصرف لاکھوں ڈالر کی بچت ہوگی بلکہ 46 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بچ جائے گا۔