اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ کورونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنادیا اور اس میں کافی سارے لوگ شامل ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ این ڈی ایم اے اربوں روپے ادھر اُدھر خرچ کررہا ہے، نہیں معلوم یہ کیسے کام کررہا ہے، این ڈی ایم اے کے اخراجات پر کوئی نگرانی ہے یا نہیں؟ این ڈی ایم اے باہر سے ادویہ منگوا رہا ہے، نہیں معلوم یہ ادویہ کس مقصد کے لیے منگوائی جارہی ہیں، دستاویز کے مطابق این ڈی ایم اے نے اپنے جہاز پر نجی کمپنی کے لیے مشینری منگوائی، کیا مشینری کی کسٹم ڈیوٹی ادا کی گئی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ این ڈی ایم اے کو قانونی تحفظ حاصل ہے، این ڈی ایم اے کا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کرتا ہے، این ڈی ایم اے ادویہ منگوانے میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔ ڈیوٹی میں فائدہ کسی کمپنی کو نہیں دیا گیا۔
جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کیا کہ باہر سے منگوائی جانے والی ادویہ کس کو دی جاتی ہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے کہا ہے کہ یہ درآمد کی گئی ادویہ جس مریض کو دی جائیں ان کا ریکارڈ رکھا جائے۔ یہ دوا تشویش ناک حالت کے مریضوں کے لیے ہے۔ بہتر ہوتا کہ کوائف اکٹھے کرنے کی ذمے داری سرکاری ہسپتالوں کو دی جاتی۔ اگر مریض کے کوائف اکٹھے کرنے شروع کردیں گے تو اتنی دیر میں مریض دنیا سے چلا جائے گا۔ مشینری منگوانے میں این ڈی ایم اے نے نجی کمپنی کو سہولت فراہم کی۔ مشینری پر کسٹم ڈیوٹی یا ٹیکس نجی کمپنی نے خود جمع کروائے۔
ممبر این ڈی ایم اے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ 28 کمپنیوں نے مشینری باہر سے منگوانے کے لیے این ڈی ایم اے سے رابطہ کیا، یہ نجی کمپنیاں این 95 ماسک نہیں بنارہی تھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو یہ نجی کمپنی این 95 ماسک بنانے والی واحد کمپنی بن گئی ہے۔ نجی کمپنی کا مالک دو دن میں ارب پتی بن گیا ہوگا، نہیں معلوم اس کمپنی کے پارٹنرز کون ہیں، ایسی مہربانی سرکار نے کسی کمپنی کے ساتھ نہیں کی، اس کے مالک کا گھر بیٹھے کام ہوگیا، نہیں معلوم کہ باقی لوگوں اور کمپنیوں کے ساتھ کیا ہوا، کورونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنادیا۔ اس میں کافی سارے لوگ شامل ہیں۔ این ڈی ایم اے نے صرف ایک نجی کمپنی کو سہولت فراہم کی، کیا ایسی سہولت فراہم کرنے کے لیے این ڈی ایم اے نے کوئی اشتہار دیا؟ ہم چاہتے ہیں ہر چیز میں شفافیت ہو۔ این ڈی ایم اے کے کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی، بیروزگاری اسی وجہ سے ہے کہ حکومتی اداروں سے سہولت نہیں ملتی۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ مزدور مشرق وسطی سے واپس آرہا ہے، یہ لوگ 3 ماہ جمع شدہ رقم سے نکال لیں گے۔ اس کے بعد مزدور کیا کریں گے، کیا حکومت کا کوئی پلان ہے۔ مشرق وسطی سے آنے والے پاکستانیوں کو کہاں کھپایا جائے گا، تعلیمی اداروں سے لوگ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں ان کو کھپانے کا کیا طریقہ ہے،ہماری صحت اور تعلیم بیٹھی ہوئی یے کوئی ادارہ بظاہر کام نہیں کررہا ۔ ہر ادارے میں این ڈی ایم اے جیسا حال ہے، حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے وہ نہیں معلوم، اگر حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے تو بتائیں۔؟ حکومت عوام کے مسائل کیسے حل کرے گی۔ کیا عوامی مسائل پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے ہے۔
جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ عوام کو روٹی، پٹرول، تعلیم، صحت اور روزگار کی ضرورت ہے، ٹی وی پر بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔