تحریر: محمد عماد
کورونا وائرس یا کوڈ 19 نے گزشتہ دو سال سے خطہ ارض کے طول و بلد میں جو تباہی مچا رکھی ہے اسکی مثال انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ گو کہ ماضی میں بھی کئی امراض پھوٹ پڑے اور وسیع پیمانے پر جنگیں بھی وقوع پذیر ہو چکی ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آگئی ہو مگر اب ایسا ضرور ہے۔
دنیا کا کوئی شہر، ملک، خطہ یا براعظم ایسا نہیں جہاں اس موذی وبا نے پنجے نہ گاڑ رکھے ہوں ماسوائے براعظم انٹارکٹیکا کے جہاں درجہ حرارت پورا سال منفی اور برف سے ڈھکا رہتا ہے جسکی وجہ سے وائرس کا وہاں پنپنا ممکن نہیں۔ کورونا وائرس کی افزائش کے متعلق بھی کئی نظریات سامنے آئے ہیں ۔ کچھ ماہرین و سائنسدانوں کے مطابق یہ وبا 7جنوری 2020 کو چینی شہر وہان کی جانوروں کی مارکیٹ سے پھوٹی جبکہ حالیہ ایک اور تحقیق کے مطابق بھارت کو اس وبا کا پیدائشی مرکز قرار دیا جا رہا ہے۔ اس موذی وبا سے تادم تحریر دنیا بھر سے 147،730،985 متاثرہو چکے ہیں جس میں سے 3،122،431 افراد جاں بحق جبکہ 124،570،423 افراد اس وباء کو شکست دے کر زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔
پاکستان میں اس وباء کی تشخیص 26 فروری 2020 کو ہوئی۔ اس وبا کی ملک میں دو شدید لہریں گزر چکی ہیں جبکہ حالیہ تیسری لہر کو پہلے سے زیادہ ہلاک خیز قرار دیا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں اب تک کورونا متاثرین کی تعداد 795،627 ہے، جس میں سے 17،117 افراد جاں بحق اور 689،812 افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔ درج بالا اعدادوشمار کے مطابق شرح اموات 2 فیصد جبکہ شرح صحتیابی 98 فیصد ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا کی ہلاکت خیزی دوسرے ممالک کی نسبت خاصی کم رہی ہے، لیکن افسوس کہ عوامی بداحتیاطی کے سبب حالیہ تیسری لہر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جسکے اثرات بھی دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ اس لہر نے سب سے زیادہ تباہی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مچا رکھی ہے پنجاب کے کئی شہروں میں کورونا کیسسزکی شرح 15 سے 20 فیصد تک بڑھ چکی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ ملکی پیداواری آکسیجن کا 90 فیصد حصہ اسپتالوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق اگر یہ صورتحال جاری رہی تو اگلے دو ہفتوں کے دوران مکمل لاک ڈاون کیا جاسکتا ہے۔
اس پیچیدہ صورتحال کی اصل وجہ عوام کی جانب سے حکومتی ایس او پیز پر عمل نہ کرنا ہے ۔ اس انتہائی پیچیدہ و نازک صورتحال میں عوامی رویہ مایوس کن ہے۔ حکومت کی جانب سے بارہا تنبیہ کے باوجود عوام غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ نہ ہوٹلوں اور بازاروں کی گہما گہمی میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ماسک پہننے کو تیار ہے ۔ قانون نافذ کر نے والے اداروں کی بارہا کوشش و ناکامی کے باعث وزیراعظم نے فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاک فوج سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایس او پیز پر عملدرامد یقینی بنائے گی۔
اب اسے باغیانہ طبیعت کہہ لیجیے یا پڑھی لکھی جہالت۔۔۔ جب تک ہماری قوم کو وقت کی چوٹ نہ پڑے یا کوئی ڈنڈا لئے سر پر کھڑا نہ ہو تب تک کسی بات پر آسانی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ گو کہ لوگ کورونا کی ہلاکت خیزیوں سے رب کی پناہ مانگتے تو نظر آتے ہیں لیکن سماجی فاصلے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نہ میل جول میں کمی لانے کو تیار ہیں اور نہ ہی پرہجوم اجتماعات سے پرہیز کرنے کو تیار ہیں۔
پاکستان جیسے ملک جہاں کے مسلمان مذہبی رجحان زیادہ رکھتے ہیں علماء کرام کی تنبیہیوں اور احادیث نبوی ﷺ کی وبائی امراض سے متعلق احتیاطی ترابیروں پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ عوامی ایک طبقہ تو اس وبا کو مغربی سازش قرار دے کر اسکے وجود کا ہی انکاری ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ اسی وبا بے سعودیہ اور ایران جیسے اہم اسلامی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور وہاں کی حکومتیں بھی عوام کے تحفظ کے لئے حفاظتی اقدامات اٹھا رہی ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کورونا نے ایسی تباہی مچا رکھی ہے کہ نہ اسپتالوں میں آکسیجن و بستر میسر ہیں تو نہ ہی شرح اموات میں کمی دیکھنے کو آرہی ہے۔ قبرستانوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے اور شمشان گھاٹ جہاں ہندو رسوم کے مطابق ایک چتا جلانے کے اگلے 48 گھنٹوں تک دوسری نہیں جلائی جاسکتی۔ اب وہاں 24 گھنٹے بلا کسی وقفے کے فضاؤں کوچھوتا سیاہ دھواں اور جلتے شعلے دل دہلا دینے والے مناظر پیش کر رہے ہیں ۔ بھارت میں بھی عوامی غیر سنجیدگی نے ایسے دردناک قومی المیے کو جنم دیا ہے۔
اب من حیث القوام ہمیں بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ عید کی خریداری کے سلسلے میں مزید ایس او پیز کی خلاف ورزیاں ہو سکتی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو خدانخواستہ ہمیں بھی بھارت جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا کو چاہیے کہ وہ موثر تشہیری مہم چلائے جبکہ حکومت پر لازم ہے کہ مکمل لاک ڈاون سمیت ہر ممکن اقدام کرے تاکہ آج کوقربان کر کے آنے والا کل محفوظ بنایا جاسکے۔