پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا وبا شدت اختیار کرتی جارہی ہے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت جیسی کورونا صورتحال پاکستان کے دروازے پر بھی دستک دیتی نظر آتی ہے، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں آکسیجن کی کمی مریضوں اور لواحقین کے لیے کسی آفت ناگہانی سے کم نہیں ہے، پاکستان کوبھارت جیسے جان لیوا خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے عوام نے اس بار کرونا کو سنجیدہ نہ لیا تو پھر خدا نخواستہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی ہسپتالوں کے اندر، باہر، سڑکوں، فٹ پاتھوں، گلیوں، بازاروں، کھیتوں اور کھلیانوں کے مناظر خوفناک و دل خراش ہو سکتے ہیں۔
کورونا کی پہلی لہر کے دوران اقدامات اور وبا کے پھیلا ومیں کامیابیوں کو فتح کے میڈل سمجھ کر سینے پہ سجانے اور دنیا کو دکھانے والے بھارتی اورپاکستانی وزرائے اعظم کواس وقت اپنے اپنے ممالک میں کورونا کے نئے اورشدید حملوں کا سامنا ہے کورونا کی نئی، بدمست اور بے قابو لہر نے بھارت میں جابجا خوف اور موت کے مہیب سائے پھیلا دیے ہیں ہسپتالوں میں آکسیجن ختم تو سڑکوں پہ زندگی سسک سسک کے دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ عورتیں، بچے اور بوڑھے حکومتی بے بسی پہ ماتم کناں ہیں۔
ماہرین کے مطابق بھارت نے رواں سال فروری مارچ میں کورونا کا پھیلاو روکنے کا نادرموقع گنوایا، بھارتی وزیراعظم نے فخر سے دنیا کو بتایا کہ بھارت کورونا کوشکست دے چکا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں کورونا کو شکست پر قرارداد بھی منظور کی گئی، اسی خوش فہمی میں دوسری کورونا لہر کے دوران بھارت میں سیاسی جلسوں اور کمبھ میلے کی کھلی آزادی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت میں کورونا کی وبا انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں کیسز اور ہزاروں اموات سامنے آ رہی ہیں۔ بھارت کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں لاشیں جلانے کے لیے شمشان گھاٹوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ بھارت میں کورونا کے تین لاکھ 50 ہزار کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ایک دن میں 2 ہزار 760 افراد جان سے چلے گئے۔ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 10 پروفیسر اب تک جاں بحق ہو چکے ہیں۔ برطانوی ماہر ین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت میں کورونا وبا ابھی نقطہ عروج پرنہیں پہنچی۔ ابھی تو شروعات ہے مئی کے پہلے ہفتے کے دوران بھارت میں کورونا کیسز کی روزانہ تعداد 5 لاکھ تک اور اموات 5700 تک ہونے کا خدشہ ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں بھی پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ برس نومبر، دسمبر میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران باتیں زیادہ اور عمل کم ہوا، بازاروں، بس اڈوں، ریستورانوں، منڈیوں اور مارکیٹوں میں معمولات نام نہاد احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رہے۔ پہلی لہر پر اسمارٹ لاک ڈاون اورسختی کی بدولت قابو پالیا گیااس وقت بھی لوگوں نے کرونا کو سنجیدہ نہیں لیا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئی کسی نے کرونا وائرس کو امریکہ کی شرارت کہا تو کسی نے یہودی لابی کا طعنہ دیا کسی نے حکمرانوں کی طرف سے حالات خراب کرنے کا شوشہ چھوڑا تو کسی نے اسے ایک وہم قرار دیا۔
پہلی لہر کا تو ہم نے روتے پیٹتے مقابلہ کرلیا، مگر اب دوسری اور پھر تیسری لہر نے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔ پاکستان میں کورونا کی دوسری اور تیسری لہر کے دوران پہلی لہر جیسا لاک ڈان اور احتیاطی اقدامات کہیں بھی دیکھنے کو نہ ملے۔ جون 2020 میں یومیہ کورونا کیسز کی تعداد تقریبا 7 ہزار تک پہنچ گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں دوسری بار لاک ڈاون کو خارج ازامکان قرار دیا اور کہا کہ لاک ڈاون نہیں کرسکتے۔ غریب اوردیہاڑی داربھوکے مارے جائیں گے۔ صرف لوگ ماسک اور احتیاط کریں مگر ہم لوگوں نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی یہی وجہ تھی کہ دوسری لہر کے دوران گزشتہ سال 24 دسمبر کو ملک میں سب سے زیادہ 111 اموات ہوئیں اور اب ملک میں کورونا کی تیسری لہر یو کے اسٹرین سب سے مہلک ثابت ہوئی۔ مارچ میں شروع ہونے والی اس لہر میں اموات کا تناسب 100 اور 150 کے درمیان تک پہنچ چکاہے۔ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں آکسیجن کی کمی مریضوں اورلواحقین کے لیے کسی آفت ناگہانی سے کم نہیں ہے اس لیے پاکستان کو بھارت جیسے جان لیوا خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی پنجاب میں مکمل لاک ڈان کا مطالبہ کیا ہے پی ایم اے کے عہدیدار پروفیسر شاہد ملک اور پروفیسر اشرف نظامی نے کہا ہے کہ حکومت فی الفور پنجاب میں 15دن کیلئے مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ کرے۔ پچھلے سال 23 اپریل کو ملک بھر میں 1115 کنفرم کیسز تھے اور ایکٹیو کیسز کی تعداد 839 تھی آج سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں 790016کنفرم کیسز ہیں اور 86529 ایکٹیو کیسز ہیں پورے ملک میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 18سے 75 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ کورونا سے شرح اموات 2.20 ہے۔
پنجاب حکومت نے اچھا فیصلہ کرتے ہوئے کورونا وائرس کی تازہ صورتحال کے بعد 25 اضلاع میں تمام اسکولوں کو بند کرنے کا حکم جاری کردیا۔ ان اضلاع میں نویں سے بارہویں جماعت کے طلبا و طالبات ہفتے میں دو دن بھی اسکول نہیں آئیں گے۔ متاثرہ اضلاع میں لاہور، بہاول نگر، بہاول پور، بھکر،چکوال، ڈی جی خان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، حافظ آباد ،جھنگ ، قصور، خانیوال ، خوشاب، لودھراں، منڈی بہاوالدین ، ملتان ، اوکاڑہ اور پاکپتن، رحیم یارخان، راولپنڈی ، ساہیوال، سرگودھا، شیخو پورہ، سیالکوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ شامل ہیں۔ ان تمام اضلاع میں اسکولوں کو تاحکم ثانی بند کردیا گیا ہے جبکہ صوبے کے باقی 11اضلاع میں اسکول ایس او پیز کے مطابق کھلے رہیں گے اسکے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں لاک ڈاون میں 17 مئی تک توسیع کردی ہے۔ فیصلہ صوبے میں کورونا کیسز میں تشویش ناک حد تک اضافے کے بعد کیا گیا۔
لاک ڈاون کے دوران پنجاب بھرمیں کاروباری مراکز شام 6 بجے بند کر دیئے جائیں گے۔ ہفتے اور اتوار کاروباری سرگرمیاں بند ہوں گی۔ تمام سرکاری اور نجی دفاتر میں 50 فیصد عملہ کام کرے گا۔ دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے دوپہر 2 بجے تک ہوں گے۔ ریسٹورنٹس میں اِن ڈورڈائننگ پر مکمل پابندی ہوگی۔ تمام تفریحی پارکس بند رہیں گے۔ صوبے بھر میں سینما ہالز مکمل طور پر بند رہیں گے۔ اسپورٹس، ثقافتی تہوار اور اجتماعات پر مکمل پابندی ہوگی۔ صوبے بھرمیں اِن ڈورشادی اور دیگر تقریبات پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ 8 فیصد سے زائد شرح والے اضلاع میں تمام تقریبات پر پابندی ہوگی۔ ان اضلاع میں ریسٹورنٹس اور مزارات بند ہوں گے۔ ریلوے سروس 70 ،پبلک ٹرانسپورٹ 50 فیصد گنجائش کے ساتھ چلے گی۔ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ ہفتے میں 2 روز مکمل بند رہے گی۔ واضح رہے کہ پنجاب بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت تمام بڑے اسپتالوں میں آئی سی یو بھر گئی ہیں اب بھی وقت ہے کہ ہم کورونا وائرس کو سنجیدہ لیتے ہوئے احتیاط کرلیں اسی میں ہمارا اور ملک کا فائدہ ہے۔