تحریر: توفیق حنیف
دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا۔شروع میں اس خبر کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن جب دنیا کو اس بارے میں پتہ چلا تو اس سے متعلق طرح طرح کی باتیں سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ جب وائرس کے کیسز دیگر ممالک میں رپورٹ ہونا شروع ہوئے تو لوگوں میں ایک افراتفری اور بے یقینی کی سی کیفیت تھی۔
پاکستان میں جب کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنا شروع ہوئے تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کئی سازشی تھیوریز، وباء کا توڑ اور علاج معالجے کے ٹوٹکے سامنے آنے لگے۔ کچھ لوگوں نے کورونا وائرس کو عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے خلاف ایک گھناؤنی سازش قراردیا تو کوئی اسے عذاب الہٰی کہتا رہا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ دنیا کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اس لیے اس پر قابو پانے اور اسے کم کرنے کے لیے یہ وبا پھیلائی گئی ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ ایک بایولوجیکل ہتھیار ہے جو چین کے شہر ووہان کی ایک لیب میں تیار ہوا اور وہاں سے ان میں اس کو سنبھالنے میں کوتاہی ہوئی اور یہ وہاں سے لیک ہوا اور دنیا بھر میں پھیل گیا۔یہاں تک کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسے چینی وائرس قراردیتے رہے۔
کورونا کے علاج سے متعلق طرح طرح کی باتیں ہوئیں۔کسی نے کہا کہ فلاں گولی کھائیں تو کوئی کسی انجیکشن کو کورونا کا توڑبتاتا رہا۔کچھ لوگوں نے کہا کہ چونکہ یہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے اللہ کا عذاب ہے اس لیے ہمیں اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ پانچ وقت نماز کا وضو کرنے سے ہی بندہ کورونا سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کبھی پیاز کو کورونا کا حل بتایا گیا تو کبھی لہسن اور دوسری جڑی بوٹیوں کو اور اس پر دکھ کی بات یہ تھی کہ ہم لوگ بغیر تصدیق کے نہ صرف ان افواہوں پر عمل کرتے رہے جس کے نتیجے میں کئی لوگ اپنی صحت خراب کر بیٹھے بلکہ ہم نے اس کو آگے بھی پھیلایا۔ اس کے علاوہ جس چیز کے بارے میں تھوڑی سی افواہ ہوتی کہ اس سے ممکن ہے کورونا کا علاج ہو تو فواً ہی یا تو وہ مارکیٹ سے غائب ہوجاتی اور بلیک میں فروخت ہوتی یا پھر اس کے ریٹس کئی گنا بڑھادیے جاتے۔ہزار روپے کی قیمت والے انجیکشن لاکھوں میں بکتے رہے۔ پھر پتہ چلا کہ کورونا کا شکار ہوکر صحت یاب ہونے والے لوگوں کے پلازما میں اینٹی باڈیز پیدا ہوجاتی ہیں جو کورونا کے علاج میں کچھ فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں تو بجائے اپنا پلازما عطیہ کرنے کے ہم لوگوں نے اس کو بھی لاکھوں میں بیچا۔اس کے علاوہ پرائیویٹ اسپتالوں نے کورونا کے علاج کے نام پر، بیڈز دینے کے نام پر لوگوں کی جیبوں پر خوب ہاتھ صاف کیے۔
حکومت نے جب لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیرکا اعلان کیا تو ہم ان کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگائی گئی تو ہم نے بازاروں اور گلی کوچوں، تقریبات میں اپنے معمولات کو تبدیل نہ کیا ۔فاصلہ رکھنے کو کہا گیا تو ہم گلے ملتے رہے، دعوتیں اڑاتے رہے۔ بچوں کے اسکول کورونا کی وجہ سے بند ہوئے تاکہ بچے اس سے محفوظ رہے ہیں تو ہم ان بچوں کو لے کر شاپنگ مالز، پارکس اور رشتہ داروں کے ہاں گھماتے رہے۔ ماسک پہننا تھا وہ ہم نے یا تو سرے سے پہنا ہی نہیں کبھی اگر کبھی پولیس کے ڈر سے پہننا بھی پڑا تو اکثر وہ ہمارے کانوں پر لٹکتا رہا یا پھر ہماری ٹھوڑی پر جمارہا۔ مارکیٹس بند کرنے کو کہا گیا تو تاجر برادری نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اور باوجود پابندی کے مارکیٹیں کھولتے رہے۔سختی کی گئی تو شٹر گراکر کاروبار چلائے گئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ڈنڈے کے زور پر ہم سے ایس اوپیز پر عمل کرانے کی کوشش آج بھی جاری ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان شہروں میں بھی یہی حال ہے جہاں پڑھے لکھے لوگ زیادہ تعداد میں ہیں۔ اسی طرح جب کورونا کی ویکسین آئی اور ویکسی نیشن کا عمل شروع کیا گیا تو اس پر بھی کئی سازشی تھیوریز سامنے آنے لگیں۔ کچھ لوگ اسے بل گیٹس کی مسلمانوں میں ویکسین کے ذریعے کوئی چپ لگانے کو ساز ش قراردیا تو کسی نے کہا کہ اس ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کم کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے اور بھی کئی اس طرح کی سازشی تھیوریز بنتی رہیں مگر المیہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ رتھمے گا نہیں۔۔۔۔