27ویں آئینی ترمیم کی سینیٹ سے شق وار منظوری، اپوزیشن کا شدید احتجاج

اسلام آباد: وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کی سینیٹ سے منظوری کی تحریک پیش کردی، جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
ایوان بالا (سینیٹ) کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں جاری ہے، جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترامیم ایک ایک کرکے پیش کرنا شروع کردیں۔
پی ٹی آئی اراکین سینیٹ نے شدید احتجاج کیا، پی ٹی آئی ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر اڑاانا شروع کردیں اور اپوزیشن ارکان چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے۔
اپوزیشن کے شور شرابے میں 27ویں ترمیمی بل کی شق وار منظوری کے دوران سینیٹر سیف اللہ ابڑو پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل نہیں ہوئے اور ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
پی ٹی آئی کے فیصل ابڑو نے بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، سینیٹر نسیمہ احسان نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، 7ویں آئینی ترمیم بل آرٹیکل 42میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئی، ترمیم کے حق میں 64 اور مخالفت میں صرف 2 ووٹ ڈالے گئے۔
اپوزیشن کے اعتراض کے بعد دوبارہ گنتی کی گئی، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق آرٹیکل 42میں ترمیم کثرت رائے سے منظور ہوگئی، آرٹیکل 59میں ترمیم بھی کثرت رائے سے منظور کی گئی۔
چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ترمیم کے حق میں 64 ووٹ آئے، آرٹیکل 63اے میں لفظ سپریم کی جگہ وفاقی آئینی عدالت قائم کرنے کی ترمیم منظور دی، آرٹیکل 68 میں پارلیمانی بحث کے حوالے سے وفاقی آئینی عدالت کا ذکر شامل کرنے کی ترمیم منظور کی گئی۔
آرٹیکل 78 میں ترمیم متعلقہ پیراگراف میں وفاقی آئینی عدالت کا ذکر شامل کرنے کی ترمیم بھی منظور کی گئی، اس دوران پی ٹی آئی اراکین ایوان سے واپس چلے گئے۔
آرٹیکل 81 کے دونوں پیراگراف میں عدالت کا اضافہ کرنے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔
پی ٹی آئی کے صرف سیف اللہ ابڑو ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ترمیم کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔
آرٹیکل 93 میں وزیراعظم کو 7مشیروں کی تقرری کا اختیار دینے کی ترمیم منظور کرلی گئی، آرٹیکل 100 میں لفظ سپریم کی جگہ وفاقی آئینی عدالت شامل کرنے کی ترمیم منظور کی گئی۔
سینیٹر فلک ناز چترالی، سینیٹر فوزیہ ارشد مسلسل چور چور کے نعرے لگا رہے ہیں۔
پریذائیڈنگ آفسر منظور کاکڑ نے ستائیسویں آئینی ترمیم پر بحث کا آغاز کیا، سینیٹر آغا شاہ زیب درانی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کسی ذات کا مسئلہ نہیں، یہ ملک و قوم کا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کیوں نہیں کروائے، پی ٹی آئی میں صبر کا مادہ نہیں، خاموشی اور صبر سے بات سنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 4 ہزار دہشت گرد کس نے جیلوں سے نکالے، ہم نے اسی لیے ان کا نام طالبان خان رکھا تھا کہ وہ طالبان کے حامی ہیں، بانی پی ٹی آئی نے ایک آمر کو ووٹ دیا، 2018 میں آرٹی ایس کس نے بٹھایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کس نے جلسے میں کہا تھا آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے، ساڑھے تین سالوں میں 50سے زائد آرڈیننس جاری کیے گئے۔
سینیٹر فوزیہ ارشد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر موجود نہیں جوکہ ہونا چاہیے، 27 ویں ترمیم میں اداروں کو پامال کیا جارہا ہے، یہ ترمیم ذاتیات پر مبنی ہے۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر پونجومل بھیل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پارٹی نے ملک، آئین کیلئے بہت قربانیاں دیں، جس نے آئین بنایا اس کو آپ نے ماورائے آئین قتل کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر جو بھی ترامیم آئی ہیں میں ان کی حمایت کرتا ہوں، بانی پی ٹی آئی نے طالبان سے معاہدہ کیا، بینظیر بھٹو نے کمپرومائز نہیں کیا اور شہید ہوگئیں، ملک کو تمام مسائل سے بلاول بھٹو نکال سکتا ہے۔
سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ ملک میں عدالتوں کے اندر پنڈینسی بہت زیادہ ہے، پچاس سال کے بعد عدالتوں میں ججز کی تعداد کو بڑھایا گیا، ججز کی تعداد بڑھانے کے باوجود بیس بیس عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ڈھائی سو ارب روپے ٹیکس کے کیسز زیر التوا ہیں، ملک میں آئینی عدالت بننی چاہیے، پاکستان کا عدالتی نظام 124 ویں نمبر پر ہے، کریمنل جسٹس سسٹم میں ہمارے ملک کا نمبر 108 ویں نمبر پر ہے، ہمیں نظام میں بہتری لانا ہوگی۔
سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم کے موقع پر بھی ہماری ترمیم کو نہیں سنا گیا، ایم کیو ایم، بی این پی، ق لیگ نے ترامیم دی ہیں ان کو منظور کیا جائے، صوبائی کابینہ میں کم ازکم ایک اقلیتی برادری کا رکن بھی ہونا چاہیے، چھوٹی پارٹیوں کو سنا جائے۔
27 ویں آئینی ترمیم پر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کردی گئی، چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے رپورٹ ایوان میں پیش کر دی۔
وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے ملاقات کی، ملاقات میں 27 ویں آئینی ترامیم کے حوالے سے مشاورت کی گئی، ووٹنگ کے عمل پر بھی مشاورت کی گئی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ دو دن جوائنٹ کمیٹی نے اس پر کام کیا، کمیٹی نے جو بل اس ایوان میں پیش کیا تھا اس میں کافی تبدیلیاں کی گئیں، فیڈرل کانسٹی ٹیشن کورٹ بنانے کا بل میں مطالبہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں کانسٹی ٹیوشنل بینچز موجود ہیں، کمیٹی نے بل کے اندر کچھ تبدیلیاں کی، تبدیلی میں کہا گیا کہ اس کورٹ میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ دوسری تبدیلی یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کے لیے سات سال کا تجربہ مانگا گیا تھا جسے کمیٹی اراکین نے 7 سال سے کم کرکے پانچ سال کردیا ہے۔
کمیٹی نے سینیارٹی میں موجود سپریم کورٹ ججز میں سے آئینی عدالت میں تقرری کی صورت میں سینیارٹی متاثر نہ ہونے کا کہا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر باہر سے اس بینچ میں تقرری ہوگئی تو ان کی جوائننگ سے سینیارٹی بنے گی، بل میں اس بینچ میں ایک ممبر جو نان ممبر ہونا تھا اس کی تقرری کا اختیار اسپیکر کو دیا گیا تھا، اب اس ممبر کی تقرری میں عورت یا نان مسلم یا ٹیکنوکریٹ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ججوں کے تبادلے سے متعلق ترمیم بھی منظور کی گئی ہے، ججوں کے تبادلے سے متعلق ترمیم میں پیش کردہ طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا، ججوں کا تبادلہ اب جوڈیشل کمیشن کے تحت ہو سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جج جو تبادلے کو قبول نہیں کرے گا اس کے خلاف ریفرنس دائر ہوگا، جوڈیشل کمیشن ریفرنس کا جائزہ لے گا جج کو موقع فراہم کیا جائے گا۔
صدر پر فوجداری مقدمات سے استثنیٰ سے متعلق ترامیم کا جائزہ لیا گیا، پبلک آفس ہولڈر بننے پر ترمیم میں شامل استثنیٰ ختم ہو جائے گا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پہلے سپریم کورٹ کے پاس سو موٹو پاور تھیں، اب بھی سوموٹو پاور تو موجود ہے لیکن اس کو محدود کر دیا گیا کہ آئینی عدالت پہلے درخواست کا جائزہ لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے 99 آرٹیکل کے مطابق 6 ماہ تک انٹیرم کا آرڈر رہتا تھا جس کی وجہ سے بے اندازہ بیک لاک تھا، اب کمیٹی نے 6 مہینے مزید دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سال میں اسٹے وکیٹ ہوجائے گا، ٹرانسفر آف ججز کے حوالے سے پہلے دو ججز کی مشاورت درکار ہوتی تھی، ابھی کمیٹی نے بل کے اندر اس ٹرانسفر کا طریقہ تبدیل کردیا ہے، اب جج کی ٹرانسفر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہوگی۔
کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر کوئی جج تبادلے پر اعتراض کرتا ہے تو وہ صرف ریٹائر نہیں ہو گا بلکہ اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو گا، بل میں صدر مملکت کا لائف لانگ استثنی دینے کا ذکر تھا، کمیٹی نے تبدیلی کردی ہے کہ اگر صدر مملکت ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن لڑ کر پبلک آف ہولڈر بن جاتا ہے تو اسے اس دورانیہ میں یہ استثنی حاصل نہیں ہوگا۔
فاروق ائچ نائیک نے کہا کہ یہ بڑی تبدیلیاں جو کمیٹی پروپوز بل میں لائی ہے، اس کے علاؤہ کچھ چھوٹی تبدیلیاں بھی ہیں، میں کمیٹی میں تعاون کرنے پر تمام۔کمیٹی ممبران کا شکر گزار ہوں۔
سینیٹ میں 49 ترامیم پر مبنی 27ویں آئینی ترمیمی بل پر رپورٹ کے مطابق صدر مملک کو تاحیات استشنی حاصل ہوگا، گورنرز کو صرف دوران مدت استشنی حاصل ہوگا، صدر اور گورنر کے خلاف فواجداری کاروائی نہیں ہوسکے گی۔
ترمیم کے مطابق آرٹیکل 243 میں پارلیمانی کمیٹی نے کوئی ترمیم نہیں کی، فیلڈ مارشل،مارشل آف ائیر فورس،ایڈمرل آف دا فلیٹ کو بھی استشنی حاصل ہوگا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ آئینی عدالت وقت کی ضرورت ہے، ملٹری کمانڈ کے معاملے پر طویل مشاورت کی گئی۔
ڈپٹی وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ ہاوس میں میڈیا سے گفتگو کی، اس دوران صحافی نے سوال کیا کہ ڈار صاحب کیا نمبر پورے ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ جی ان شاء اللہ،۔
سوال کیا گیا کہ کیا نیشنل پارٹی آئینی ترمیم کی حمایت کرے گی؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو پتا چل جائے گا، جب ووٹنگ ہوگی۔
27ویں ترمیم سینیٹ میں پیش کرنے سے قبل اراکین سینیٹ کے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا گیا۔
سینیٹر دنیش کمار نے ناشتے کا مینیو بھی بتایا اور کہا کہ ناشتے میں، انڈے تھے، پراٹھے تھے، حلوہ تھا، کروسینٹ تھے۔
سوال کیا کہ کیا ناشتے کے بعد تمام اراکین ووٹ دیں گے،اس پر انہوں نے جواب دیا کہ جس کا نمک کھایا جاتا ہے اس سے وافاداری کی جاتی ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کوئی ڈیڈ لاک نہیں، سینیٹ میں ہمارا نمبر پورا ہے، جونہی ووٹر پورے پہنچیں گے ووٹنگ شروع کردی جائے گی۔
وزیر قانون نے کہا کہ ہمیشہ مشاورت ایسے ہی ہوتی ہے، اس میں وقت تھوڑا لگتا ہے، 26ترمیم میں شام کو جاکر ووٹنگ ہوئی تھی۔
جے یو آئی کے مرکزی رہنما و سینیٹر کامران مرتضیٰ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں ہر چیز پر اعتراض ہے، حکومت پر اعتبار بھی نہیں، 27 ویں ترمیم سے 26 ویں ترمیم کو رول بیک کر دیا گیا ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ حکومت نے ہمیں ترمیم پڑھنے کی اجازت نہیں دی،
تحفظات کے باوجود ہم مشترکہ کمیٹی میں جانا چاہتے تھے، ہم کمیٹی میں اپنی تجاویز بھی رکھنا چاہتے تھے۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ آج حکومت 27 ویں آئینی ترمیم سینٹ سے پاس نہ کرسکے، جب سے بلاول بھٹو نے اس متعلق ٹوئٹ کیا ہے ہم اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ہم بھرپور احتجاج کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترمیم منظور ہوجائے گی اللہ نہ کرے پاکستان فیل ہوجائے، یہ اگر انہوں نے ترمیم کو منظور کروانا ہے تو طاقت کے زور پر جو کرنا ہے کرتے جائیں، اس پر کوئی ڈیبیٹ نہیں ہورہی نہ ہی دوسروں کا ان پُٹ ہے، پارلیمان کی وقعت پہلے بھی نہیں تھی، اب مزید نہیں رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر لوگ لنچ کرنے آتے ہیں، ڈنر کرنے آتے ہیں، پی ٹی آئی اور جے یو آئی اپوزیشن جماعتیں ہیں۔
میڈیا سے گفتگو میں سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ ستائیسویں ترمیم منظور ہوگئی ہے، وزیراعظم نے زبردست کام کیا ہے، میں ان کی قدر کرتا ہوں، وزیراعظم نے جمہوری روایت کے تحت ایک انتہائی اچھا اقدام کیا ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ خیبر پختونخوا کے نام تبدیلی کے حوالے سے پیش کیے جانے کی ترمیم سے متعلق کیا کہیں گے؟ فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ ایمل ولی میرا دوست ہے، جیسا کہیں گے کردے گا۔
صحافی نے سوال کیا کہ مولانا صاحب کو راضی کرلیں گے؟ فیصل واوڈا نے جواب دیا کہ مولانا ہمارے بڑے ہیں ہم ان سے سیاست سیکھتے ہیں، اب اس ترمیم میں دم نہیں رہا، اٹھائیسویں ترمیم کی تیاری کریں، ستائیسویں آئینی ترمیم سے جمہوریت مضبوط ہورہی ہے، یہ ہمارے ملک کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمارا دفاع مضبوط ہوگا۔

27 AmendmentapprovalSenate