کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ہے، لیکن اس بات نے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت تو کبھی رہی ہی نہیں، کبھی سول ڈکٹیٹر شپ رہی، جسے ہم جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں اور دوسری ڈکٹیٹر شپ۔
جمہوریت کی دعویدار پیپلزپارٹی کی اولین عوامی حکومت میں سیاستدانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے، اسی باعث ہی 1977 میں مارشل لا لگا۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو ضیا الحق کے خلاف ہوئے، تو انھیں برطرف ہونا پڑا۔ محترمہ بینظیر بھٹو مکمل بااختیار نہ ہونے کے باوجود پہلے سویلین صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئیں اور پھر اپنے ہی بنائے ہوئے صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئیں۔ ان کی دونوں برطرفیوں کا سیاستدانوں کی اکثریت نے خیر مقدم کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اپنے ہی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرف ہوئی اور بعد میں بھاری مینڈیٹ کے باوجود وہ پرویز مشرف سے نہ بچ سکی۔ سابق وزیراعظم ظفر اﷲ جمالی نے قیادت سے اختلاف کیا تو انھیں مستعفی ہونا پڑا اور شوکت عزیز نے پرویز مشرف کی ہر بات مان کر اپنی مدت پوری کی۔ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف صدر آصف علی زرداری کے مرہون منت تھے، ان کی حکومتوں پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگے۔
ابراہام لنکن نے جمہوریت کے لئے کیا خوب کہا تھا: عوام کے ذریعے عوام کی حکومت عوام کے لئے۔ لیکن افسوس پاکستان میں دو بڑی پارٹیاں پی پی اور ن لیگ ہی اقتدار میں آتی رہیں، جن کو آپ تیری واری فیر میری واری جمہوریت بھی کہہ سکتے ہیں۔ جمہوریت کی نام لیوا ان پارٹیوں میں بدترین ڈکٹیٹر شپ ہے۔ کسی بھی پارٹی میں پارٹی سربراہ کو سربراہ کہنے کے بجائے پارٹی مالک کہنا زیادہ قرینِ انصاف ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ بڑا سے بڑا پارٹی لیڈر بھی پارٹی سربراہ کے بیانات، فیصلے یا خیالات سے معمولی اختلاف یا کلمہ حق کہنے کی جرات نہیں کرتا۔
جو پارٹیاں اپنی پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات کو پروان نہیں چڑھاتیں، وہ حکومت میں آکر بھی جمہوری نظام کو نہیں چلاسکتی۔