تحریر: کبریٰ پوپل
پرندہ اور انسان دونوں الله کی پیدا کردہ مخلوقات ہیں، انسان اشرف المخلوقات ہر شے سے بالا و برتر ہے۔
ویسے تو انسان اور حیوان میں کچھ مماثلتیں ہیں، لیکن انسان میں ایک ایسی صلاحیت ہے جو اسے تمام مخلوقات سے افضل بناتی ہے وہ ہے اس کی ” سوچ”، یعنی غورو فکر کرنا اور اسی کے ذريعے وہ صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے اور ایسے ہی یہ آیت پڑھنے کے بعد میں اس پر غور کرنے پر مجبور ہوئی کہ پرندے کی وہ کون سی خوبی ہے جس سے انسان سیکھ سکتا ہے، الله پاک اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:
(ترجمہ): اور کیا انہوں نے پرندوں کو اپنے اوپر نظر اٹھا کر نہیں دیکھا کہ وہ پروں کو پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں، اور سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ ان کو خدائے رحمٰن کے سِوا کوئی تھامے ہوئے نہیں ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز کی خوب دیکھ بھال کرنے والا ہے۔
جس طرح انسانوں میں مختلف صفات خوبیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہے، یہی معاملہ الله نے پرندوں کے ساتھ بھی رکھا ہے۔ پرندے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوجاتے ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ فجر کا وقت بابرکت ہے اور پھر ذکر الٰہی میں مشغول ہوجاتے ہیں، پھر کیا کوئل، کیا کوّا ہر ایک اس کی حمد و ثناء میں مشغول نظر آتا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دن کا آغاز اپنے مالک کی حمد سے ہو۔
الله کی یہ مخلوق خالی پیٹ اپنے رزق کی تلاش میں نکل جاتی ہے، اپنے بچوں کو گھونسلوں میں چھوڑ کر بالکل انسانوں کی طرح لیکن الله کی اس مخلوق اور ہمارے درمیان میں جو ایک واضح فرق ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس فریج، الماریاں، اسٹور، کمرے اور بڑے بڑے گھر موجود ہیں، جہاں ہم ایک مہینے تک کا سامان اس فکر میں لا لاکر رکھتے ہیں کہ کہیں ہم بھوکے نہ رہ جائیں، ہمارے آرام میں خلل نہ پڑے، مسئلہ جمع کرنا نہیں بلکہ توکل کا نہ ہونا ہے جو ہم سے زیادہ پرندوں کا اپنے رب پر ہے، جو روز خالی پیٹ نکلتے ہیں لیکن بھرے پیٹ کے ساتھ اپنے گھونسلوں میں پہنچتے ہیں، جمع نہیں کرتے، ان کے پاس ذخیرہ نہیں ہوتا کھانے پینے کا، کیونکہ یہ اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ انہیں آب و دانہ دینے والے کے در پر کسی شے کی کمی نہیں، یہ روز نئی امید کے ساتھ پرواز کرتے ہیں اور شام کو بنا کسی غم اور فکر کے میٹھی نیند سوجاتے ہیں، توکّل جس دل میں ہو، وہاں خوف اور ناامیدی کی کوئی جگہ نہیں۔
لیکن انسان کے پاس تمام اسباب اور آسائشيں ہونے کے باوجود بھی اگر اس کو سال بھر کا رزق بھی دے دیا جائے تو بھی وہ ہر روز بلکہ ہر لمحہ اسی کشمکش اور خیال میں رہے گا کہ اگر یہ ختم ہوگیا تو پھر کیا کروں گا؟ کہیں یہ کم نہ پڑجائے؟ جب کہ توکل نام ہی کل کی فکر سے آزاد رہ کر موجودہ حال پر شکر کرنا اور تمام معاملات الله کے سپرد کردینے کا ہے۔
اگر انسان زندگی کے تمام شعبوں میں ایسا توکل پیدا کرلے تو وہ بھی پرندے کی مانند اڑ کر آسمانوں کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے، جہاں اسے تھامنے والا الله ہوگا اور کوئی طاقت اسے گرا نہ سکے گی۔ پرندے کے پروں میں جو راز چھپا ہے، وہ اڑتے ہوئے اسے افشاں کر جاتا ہے اور وہ راز ہے توکّل جو اسے زمین سے آسمان تک پہنچا دیتی ہے۔
توکل سے انسان اونچے پہاڑوں کو طے کرجاتا ہے، یہ پتھر کو ہیرا بنادیتی ہے، کیونکہ توکل کا مطلب بھروسہ کرنا ہے، یعنی اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا اور اس پر جو بھروسہ کرلے وہ ناکام نہیں ہوتا، کیونکہ یہ انسانوں پر بھروسہ کرنے جیسا نہیں
(ترجمہ) اور اللہ پر بھروسہ رکھو، اور کام بنانے کے لیے اللہ بالکل کافی ہے۔
جب پیچھے سے فرعون کا لشکر آرہا تھا اور آگے سمندر تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم آپ علیہ السلام کے ساتھ دست و گریبان ہوگئی اور آپ علیہ السلام کے ساتھ آنے پر پچھتانے لگی، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا بچنے کا، لیکن حضرت موسی علیہ السلام کا توکل اپنے رب پر تھا اور الله نے ان کے نیک گمان کے مطابق ان کے لیے سمندر میں راستے بنادیے، جو سب کے لیے سمندر تھا، وہ موسیٰ عليہ السلام کے لیے نجات کا راستہ کیوں کہ ان کا توکّل الله پر تھا، وہ ظاہری صورت دیکھ کر ناامید نہیں ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ”میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے۔“
(صحیح بخاری 7505)