پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ 17 اگست 1988 کو آرمی چیف جنرل ضیا کے جہاز کے حادثے کے بعد انہوں نے تین گھنٹے کے اندر آئین کو بحال کردیا تھا۔
مرزا اسلم بیگ لکھتے ہیں کہ جی ایچ کیو پہنچتے ہی انہوں نے تمام متعلقہ افسران کو آدھے گھنٹے میں طلب کیا اور متفقہ فیصلے سے چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کو بلایا۔ جب ہم نے چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کو کہا کہ آپ قائم مقام صدر ہیں، ہم اقتدار کی ذمے داریاں آپ کو سونپ رہے ہیں۔ ہماری صرف یہ عرض ہے کہ 90 دنوں کے اندر اندر اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپ دیا جائے۔ انتقال اقتدار کا آغاز ہوا، جو کہ افواج پاکستان کا فیصلہ تھا۔ جنرل ضیا کے جہاز کے حادثے سے متعلق جنرل مرزا اسلم بیگ نے لکھا کہ “راول پنڈی پہنچ کر سب سے پہلے میں نے بہاول پور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمد شفیق سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی شناخت مشکل ہے۔ جنرل ضیا کی کچھ باقیات ملی ہیں جنہیں ہم جمع کر رہے ہیں تاکہ ان کی میت کو تیار کیا جائے۔ یہاں سی ایم ایچ کے ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہے جو پوسٹ مارٹم کے لیے اعضاء اکٹھے کر رہی ہے۔ جنرل ضیا کی میت دوسرے دن راول پنڈی پہنچی۔ دوسرے دن بھی جنرل شفیق سے تفصیلی بات ہوئی۔ میں نے پوسٹ مارٹم سے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ سی ایم ایچ کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ چند دنوں بعد رپورٹ ملی تو اس میں کسی قسم کی کیمیکل کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ اس کے چند ہفتوں بعد امریکا سے رپورٹ آئی تو اس میں بھی کسی قسم کی آلائش نہیں پائی گئی۔ البتہ آدھے سے زیادہ جسموں کے ٹکڑے انہوں نے واپس کردئے تھے جو کہ امریکیوں کے نہیں تھے۔ حادثے کے دوسرے دن ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس کو ہدایت دی کہ بڑی مستعدی کے ساتھ انکوائری کریں اور تجاویز پیش کریں۔ صدر غلام اسحاق خان سے بات کی کہ وہ جوائنٹ انکوائری کا حکم کریں اور ساتھ ہی ڈی جی آئی ایس آئی کو حکم دیں کہ وہ اپنی رپورٹ الگ تیار کریں۔ پاکستان ایئر فورس نے پہلے ہی اپنی انکوائری کمیٹی متحرک کر دی تھی جس نے جائے حادثہ پہنچ کر اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ ان تمام رپورٹوں کی تفصیل تین ہفتوں میں حکومت کو مل چکی تھی۔ اس کے بعد حکومت کی ذمے داری تھی کہ اگلے اقدامات کا حکم نامہ جاری کرتی۔ چار ہفتوں کے اندر اندر پاکستان ایئر فورس کی انکوائری اور تینوں دوسری انکوائریوں کی تحقیقات کے مطابق یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ کسی کیمیکل اور گیس کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ جب جہاز ڈگمگانے لگا تو اندر سے کسی نے پائلٹ کا نام لے کر پکارا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن پائلٹ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ بلیک باکس سے اس بات کی تصدیق بھی ہوئی۔ غالباً کسی کریو ممبر نے یہ بات کہی ہو، جسے مانیٹرنگ ڈیسک نے سنا ہو۔ پائلٹ نے ایس او ایس بھی نہیں مانگا۔ انہی باتوں سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید اس حادثے کے پیچھے کوئی سازش تھی۔”
جنرل اسلم بیگ نے پاکستان میں مارشل لا کے متعلق لکھا ہے کہ “ فوج کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اسے وقتا فوقتاً امور مملکت چلانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، مارشل لا کیوں لگتا رہا؟ ہم بے صبر کیوں ہوگئے اور ہم نے جمہوری عمل کو استحکام پکڑنے کا موقع کیوں نہیں دیا؟ ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب فوج اور قوم کے درمیان ابلاغ کا بڑا خلا واقع ہو۔ ہم نے اپنے آپ کو ایک عرصے تک الگ تھلگ رکھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی مداخلت کا سبب صرف فوجی قیادت نہیں ہے بلکہ جب پانچ عناصر اکٹھے ہوں تو حکومت کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ امریکا، آرمی، عدلیہ، سول انتظامیہ اور موقع پرست سیاسی جماعتیں، مفادات کا یہ ایسا گٹھ جوڑ ہے جس کے درست ہونے میں وقت لگے گا۔”
جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ اپنے تجربات کے متعلق ایک باب لکھا ہے۔ لکھتے ہیں، “بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں مجھے محترمہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ میرا محترمہ کے ساتھ بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح احترام و عزت کا رشتہ تھا جنہوں نے تدبر و ذہانت سے ایک تھوڑے سے عرصے میں 1971 کی شکست کے بعد پاکستان کی عزت کو بحال کیا اور او آئی سی جیسی تنظیم کو نئی جہت دی۔ شاہ فیصل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی مرکزی قیادت کا تصور پیش کیا۔ یہی وہ صفات تھیں جو امریکا کو پسند نہ تھیں اور دونوں شخصیات کو یکے بعد دیگرے منظر سے ہٹا دیا۔ میں نے جنرل ضیا کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے سے منع کیا تھا لیکن ان کی ترجیحات کچھ اور تھیں اور انہوں نے بھٹو کو پھانسی دیدی۔ ہم نے جب 1988 کے الیکشن کا فیصلہ کیا تو ہم پر لعن طعن ہوتی رہی کہ ملک جہادیوں سے بھرا ہوا ہے، بڑا فساد ہوگا، لیکن الحمد اللہ انتخابات منعقد ہوئے۔ ان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ یہ میرا مینڈیٹ تو نہیں تھا لیکن پھر بھی میں نے بے نظیر بھٹو کو گھر پر دعوت دی اور مستقبل کی وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کو اہم ملکی معاملات سے متعلق ضروری باتیں بتائیں اور صرف تین باتوں کی درخواست کی۔
ا۔ اگر فوج سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتائے گا۔ میں دیکھ لوں گا، یہ میری ذمے داری ہے۔
2- جنرل ضیا کے لئے آپ کا دل سخت ہے ان کے اہل خانہ کے لئے نرمی کی گنجائش رکھیے گا۔
3- جب صدر بنانے کا وقت آئے تو غلام اسحاق خان کا نام بھی سامنے رکھیے گا۔ وہ 1975 سے اب تک ایٹمی پروگرام سے منسلک رہے ہیں۔ محترمہ نے ان تینوں باتوں کا احترام کیا۔”
جنرل اسلم بیگ نے آرمی چیف کی حیثیت میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “ایک دن بے نظیر بھٹو نے سیاچن پر میری باتیں سن کر سیاچن کے دورے کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن میں نے انہیں بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر لے جانا مناسب نہیں سمجھا اور ان سے اجازت لی کہ انہیں سترہ ہزار فٹ بلندی پر لے جایا جائے۔ مقررہ وقت پر ہم اسکردو پہنچے۔ ہم نے ان کو برفانی لباس پہنایا جو خصوصی طور پر باہر سے منگوایا گیا تھا۔ وہ لباس پہن کر محترمہ بہت ہی با وقار لگ رہی تھیں۔ سیالہ پاس پہنچے تو دو فٹ گہری برف پڑ رہی تھی اور گھٹنوں تک پاؤں برف میں دھنس رہے تھے۔ جوانوں نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔ ہم نے چاہا کہ وزیر اعظم کو برف سے محفوظ رکھنے کے لئے خیمے کی طرف لے جائیں لیکن بے نظیر بھٹو نے باہر کھلی ہوا میں اسٹول پر بیٹھ کر پورے منظر کا نظارہ کیا اور جوانوں سے گپ شپ کی۔ جوانوں نے نان، چپس اور چنے کی دال پیش کی جو ان کو بہت پسند آئی۔ یہ پہلی وزیر اعظم تھیں جو کہ 17000 ہزار فٹ بلندی پر سیاچن گئی تھیں۔ اس سے قبل ہمارے وزرائے اعظم زیادہ سے زیادہ 14 ہزار فٹ بلندی تک جاتے رہے۔”
سابق آرمی نے اپنی کتاب میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور صدر مملکت غلام اسحاق خان کے اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمے میں فوج کے سربراہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ 1990 کے آغاز میں ہی صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے درمیاں اختلافات سننے میں آئے، جن کا انکشاف اس NON Paper سے ہوا جو صدر نے مجھے دیا۔ اس میں وزیر اعظم پر متعدد الزامات لگائے گئے تھے، ان الزامات کا تعلق پالیسی معاملات سے تھا۔ میں نے اس معاملے کو کور کمانڈرز کانفرنس میں رکھا اور اس کا فیصلہ صدر مملکت تک پہنچایا۔ فیصلہ یہ تھا کہ صدر مملکت کو اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کو موقع دیں کہ وہ خود درستگی کرلیں۔ جہاں ضرورت ہو انہیں مشورہ دیں اور ان کے فرائض کی ادائیگی میں معاونت کریں، لیکن ان دونوں شخصیات میں مشاورت نہ ہوئی اور اختلافات بڑھتے گئے۔ صدر نے آئین کی شق 58 ٹو بی کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے محترمہ کی حکومت کو فارغ کردیا اور نوے دنوں میں انتخابات کا اعلان کردیا۔ 58 ٹو بی کا استعمال جنرل ضیا الحق بھی کر چکے تھے۔ اور حسب معمول صدر غلام اسحاق خان نے بھی، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے 1975 کے فیصلے کے تحت آئی ایس آئی کو الیکشن میں لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے کی ذمے داریاں عائد کی گئیں۔ ایوان صدر اور آئی ایس آئی میں قائم الیکشن سیل فعال ہوئے اور صدارتی احکامات پر عملدرآمد شروع ہوا۔ انتخابات ہوئے، مسلم لیگ ( ن ) نے اکثریت حاصل اور نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ صدر نے بے نظیر کو ہٹا دیا تھا۔ ان کی حکومت کو دوبارہ آنے کیوں دیتے۔ یہ سیاسی See. saw کا کھیل ہے جو 58 ٹو بی کے تحت 1975 کے نوٹیفکیشن کی مدد سے کھیلا جاتا رہا۔
جنرل اسلم بیگ لکھتے ہیں کہ "بے نظیر بھٹو کو میرے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا کیا گیا تھا۔ مجھ سے انہوں نے انتقام لیا، کیونکہ وہ مجھے اپنے والد کے قتل میں شریک جرم سمجھتی تھیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ میں واحد جنرل تھا جس نے بھٹو کی پھانسی کی مخالفت کی تھی اور اس اختلاف کی وجہ سے مجھے کمانڈ سے ہٹایا گیا تھا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ 1990 میں ان کی حکومت گرانے میں صدر غلام اسحاق خان پر میری جانب سے دباؤ تھا جبکہ حقیقت وہی تھی جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ محترمہ کی ناراضگی کا ایک اور بھی سبب تھا وہ یہ کہ ملک کے اندر ایک ایسی لابی تھی جو میری شخصیت کو متنازع بنانا چاہتی تھی، اس لئے کہ بطور آرمی چیف ملک کے اہم معاملات میں میرا موقف ان کے مفاد کے سامنے رکاوٹ بنا رہا، اس وجہ سے مجھے ایسا الجھایا گیا کہ مجھے آج تک سکون نہیں ملا۔ عورت کا انتقام ضرب المثل ہے۔ بے نظیر نے اگر انتقام لیا تو وہ فطری تقاضا تھا۔ مجھے اس بات پر کوئی دکھ نہیں۔”
"یہ ایک سازش تھی جو 1994کو میرے خلاف شروع ہوئی۔ بی بی کے مشیر خاص میجر جنرل نصیراللہ بابر اپنے ایک من پسند کور کمانڈر کو میری جگہ پر آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے۔ بے نظیر نے مجھے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی بنا کر میری جگہ پر اس کور کمانڈر کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے فارمیشن کمانڈرز کا اجلاس بلا کر اس کور کمانڈر کا نام لئے بغیر اس سازش کا ذکر کیا اور متنبہ کیا کہ کوئی سرخ لائن کراس کرے گا تو شرمسار ہوگا۔ یہ بات جب بی بی تک پہنچی تو انہوں نے مجھے خط لکھا جو میرے پاس محفوظ ہے۔ خط میں انہوں نے اعتراف کیا کہ کمانڈ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ یہ ان کا ظرف تھا کہ انہوں نے تسلیم کیا لیکن پھر بھی ان کے کچھ وزیر اور اہم لوگ میرے خلاف ان کے کان بھرتے رہتے تھے۔ خصوصاً 1990 میں جب غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت گرائی تو مجھے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس کے بعد ایف آئی اے کے ڈائریکٹر رحمان ملک کو میرے خلاف لگایا گیا جس نے سب سے پہلے جنرل اسد درانی سے ملاقات کی۔ اسد درانی نے ہی 1990کے انتخابات میں صدر غلام اسحاق خان کے ذریعے 1975 کے نوٹیفکیشن کا استعمال کیا تھا۔ 1994 میں جنرل درانی فارغ تھے کیونکہ جنرل وحید کاکڑ نے ان کو پیپلز پارٹی کی سیاست میں ملوث ہونے کے الزام میں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے برطرف کیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے 1994 میں ان کو جرمنی میں سفیر مقرر کرکے ان کی وفاداری خرید لی تھی۔ اسی دوران رحمان ملک نے جرمنی جا کر اسد درانی سے ملاقات کی تھی اور اپنا مقصد بیان کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ میرے خلاف مقدمہ بنانا تھا۔ اسد درانی کو رحمان ملک کی بات پر یقین نہیں آیا۔ اس لئے اس نے اپنے ہاتھوں سے بی بی کو خط لکھا اور گیم پلان معلوم کیا۔ اسی خط میں اسد درانی نے بے نظیر بھٹو حکومت کے خاتمے کے لئے رقوم کا ذکر کیا۔ رقم لینے والوں میں کھر دو ملین روپے، حفیظ پیرزادہ تین ملین، سرور چیمہ پانچ لاکھ روپے، معراج خالد تئیس لاکھ روپے، باقی اسی ملین روپے آئی ایس آئی کے کے فنڈ میں جمع کرائے گئے اور ساٹھ ملین روپے بیرونی انٹلیجنس یونٹ کو خصوصی آپریشن کے لئے فراہم کیے گئے۔ اس خط کے بعد رحمان ملک دوسری بار جرمنی گئے اور سیاست دانوں کی ایک لمبی فہرست بھی لے گئے جن پر الزام تھا کہ 1990 کی حکومت گرانے کے لئے انہوں نے آئی ایس آئی سے رقوم لی تھیں۔ رحمان ملک نے زبردستی اس فہرست پر اسد درانی سے دستخط لئے تھے اس شرط پر کہ صرف ریکارڈ کی خاطر لیکن بعد میں رحمان ملک نے یہ فہرست محترمہ کو دکھائی تھی ان کی اجازت سے نصیراللہ بابر نے 11جون1996 کو قومی اسمبلی میں اس فہرست کا اعلان کیا۔ جس پر جنرل درانی سخت مایوس ہوئے جس کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے بیان حلفی میں بھی کیا ہے۔ اس کے بعد جنرل نصیر اللہ بابر بیان حلفی لے کر آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کے پاس گئے کہ میرا ٹرائل کیا جائے لیکن جنرل وحید کاکڑ نے انکار کردیا تھا۔ شاید وہ بھی چاہتے تھے کہ سول کورٹ میں میری خاطر مدارات ہو۔ اس کے بعد بھی ان کو ایک اور وفادار بندے کی تلاش تھی تو ایئر وائس مارشل اصغر خان مل گئے جنہوں نے 1977 میں جنرل ضیا کو مارشل لا لگانے اور بھٹو کو پھانسی دینے کا مشورہ دیا تھا۔
مرزا اسلم بیگ نے اپنی کتاب میں کئی جنگی حکمت عملیوں۔ پاک افغان ایران اور چین کے اتحاد کے متعلق کئی سیاسی سازشوں کے متعلق اہم انکشافات کیئے ہیں۔ انہوں نے غلط سیاسی اور جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے پاکستان کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصانات کے حوالے سے بھی لکھا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی مصلحتوں اور امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ جنرل اسلم بیگ کی کتاب کرنل ریٹائرڈ اشفاق حسین نے مرتب کیا ہے جس کا انگریزی ایڈیشن بھی مارکیٹ میں آ چکا ہے۔