کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہم نے وہ آمرانہ دور دیکھے جس میں جج صاحبان نے ہی آمر کو اجازت دی کہ وہ آئین میں ترمیم کرلے، ججز دس دس سال تک آئین کو بھول جاتے تھے اور سارا اختیار آمر کو دے دیا جاتا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کے وکلا سے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا وکلا سے تعلق تین نسلوں سے ہے، میرا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے ملک کو آئین دیا اور ہم تین نسلوں سے آئین سازی کرتے چلے آرہے ہیں، اگر آج پاکستان موجود ہے، طاقت ور ہے اور اکٹھا ہے تو 1973 کے آئین کی وجہ سے ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے آمرانہ دور دیکھے، آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھی دیکھا، ہمارے معزز جج صاحبان کس طرح سے ایک آمر کو یہ کام کرنے دیتے ہیں اور دس دس سال تک آئین کو بھول جاتے ہیں اور سارا اختیار آمر کو دیا جاتا ہے، اس کے بعد مزید آمرانہ دور دیکھا اور شرم ناک بات یہ تھی کہ جج صاحبان نے آمر کو اجازت دی کہ وہ آئین میں ترمیم کرلے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی بے نظیر شہید جج کے سامنے پیش ہوتی تھیں اور جج انہیں آئین کا درس دیتے تھے، ہمیں کرپٹ کہا گیا کہ ہم پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، ایک سیاست دان کو ساڑھے گیارہ سال جیل میں رکھا گیا تاکہ اس نہتی (بے نظیر) کو بلیک میل کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار پی سی او کا حلف ہوجائے تو سب ٹھیک کہلاتا ہے اور دوسری بار وہی حلف اٹھایا جائے تو جمہوریت اور آئین کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، ہم نے عوام کے لیے چارٹر آف ڈیمو کریسی کیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم عدالت میں اصلاحات لے کر آئیں گے، قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوتی آئین سازی کے لیے ہم موجود ہیں، جس ذمے داری کے لیے عدلیہ بیٹھی ہے وہ کام نہیں ہورہا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ شہریوں کو فوری انصاف ملے اور چاہتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان فرق نہ رہے تو پھر آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہے، اس وفاقی عدالت میں تمام صوبوں کے نمائندے ہوں گے اور باری باری ہر صوبے سے چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا، سیاسی کیسز کو 90 فیصد وقت دیا جاتا ہے کہ عوامی کیسز کی باری نہیں آتی، اس لیے آئینی عدالت بنائیں گے جو صرف آئینی معاملات دیکھے گی۔
انہوں ںے کہا کہ کسی جج میں ہمت نہیں کہ وہ سندھ میں آکر اعلان کرے کہ وہ کالا باغ ڈیم بنائے گا، 19 ویں آئینی ترمیم عدالت کی دھمکی کی وجہ سے آئی، کیوں کہ انصاف دلانے والوں نے 18 ویں ترمیم ختم کرنے کی دھمکی دی، پارلیمان کو دھمکی دی گئی کہ آپ کے پورے آئین کو تبدیل کردیں گے، ہمیں ججز تقرری پر نظرثانی نہ کرنے پر آئین میں ترامیم کی دھمکی دی گئی، آج عدالت اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، ہمارا عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے مگر ہم عدالتی اصلاحات کے ذریعے عدلیہ کو بحال کریں گے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جو ادارے جس کام کے لیے بنے ہیں وہی کام کریں گے، آئینی عدالت ہی دیکھے گی کہ آئین کے کیا مسائل ہیں، ہم آئینی عدالت اس لیے بنائیں گے تاکہ کسی اور وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا نہ جائے اور عوام کو انصاف ملے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں کا احترام کرتا ہوں، جج کی عمر کی حد سے متعلق سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ضروری ہے شاید یہ شرط متنازع ہوجائے، مگر جہاں تک آئینی عدالت کے قیام کا معاملہ ہے اس میں عمر کی حد کی شرط لاگو نہیں کرنی چاہیے، آئینی عدالت کے جج کی عمر کے بجائے مدت طے کی جائے۔